محمد ریاض ایڈووکیٹ
بھارتی حکمران طبقے نے ایک بار پھر اپنی روایتی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نام نہاد ''امارتِ اسلامی افغانستان'' کے وزیرِ خارجہ کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس دعوت کا مقصد نہ صرف طالبان حکومت کو عملی طور پر تسلیم کرنا تھا بلکہ خطے میں پاکستان مخالف اتحاد کی ایک نئی قسط کا آغاز بھی کرنا تھا۔ یاد رہے بھارت ہمیشہ سے طالبان کے خلاف رہا اور طالبان کے برخلاف شمالی اتحاد کی حمایت کرتا رہا ہے۔
بھارت یاترا کے دوران افغان وزیرِ خارجہ نے اپنے ہی محسن ملک، پاکستان، پر بے بنیاد الزامات لگائے اور یہ باور کرانے کی ناکام کوشش کی کہ پاکستان کو بھی سوویت یونین اور امریکہ جیسا انجام دیکھنا پڑے گا۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے کہ ان دونوں سپر پاورز کی پسپائی کے پیچھے کون سی قوت کارفرما تھی۔ افغان وزیر بے شرمی سے کہتے رہے کہ افغان سرزمین کسی صورت بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی کیونکہ طالبان کا تسلط پورے افغانستان پر موجود ہے جبکہ دوسری جانب ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین کو اپنے محسن ملک پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کھلی چھُٹی دے رکھی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان وزیر کے بھارتی دورے کے دوران ہی، بھارتی ایماء پر افغان فورسز نے پاکستان کی سرحد پر بلااشتعال جارحیت کی۔پاکستانی افواج نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ان نمک حراموں کو سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور کردیا۔ پاکستانی عوام نے طنزیہ طور پر اس حرکت کو ”آپریشن تندور“ کا نام دیا جو بھارت کے ”آپریشن سندور“ کے بعد ایک نیا سانحہ بن گیا۔ بھارت کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ اب افغانستانی ”تندور والے“ بھی اسی صفِ ماتم میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہندو اور افغان دونوں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ستم ظریفی یہ کہ ”آپریشن سندور“ کے تجربہ کاروں نے اپنے افغان بھائیوں کو پیشگی ایمبولینسیں بھی فراہم کر رکھی تھیں، جو اب یقیناً کام آئیں گی۔
کل تک پاکستانی عوام، یہ سمجھتے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔ مگر امریکی انخلاء کے بعد دہشت گردی میں اضافے نے یہ غلط فہمی ختم کر دی۔ پاکستانی حکام بارہا کابل حکومت سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے، مگر ہر مرتبہ جواب میں خاموشی یا انکار ملا۔ ”آپریشن تندور“ کے بعد اب یہ نقاب ہٹ چکا ہے۔بھارت، طالبان حکومت اور ٹی ٹی پی کا ایجنڈا ایک ہی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کو ''سیکولر ریاست'' قرار دے کر اس کے خلاف جہاد کا اعلان دراصل فکری گمراہی کا مظہر ہے۔ اگر واقعی ان کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہوتا تو وہ ایران یا وسطی ایشیائی ممالک میں بھی ”شریعت“ نافذ کرنے کی بات کرتے۔ مگر وہاں انہیں کوئی ”جہاد“ نظر نہیں آتا، کیونکہ ان کا اصل مقصد اسلام نہیں بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کے مفادات کی تکمیل ہے۔
یہ رویہ ان مذہبی جماعتوں کے لیے بھی ایک کھلا سبق ہے جو طالبان کو ”اسلامی نظام“ کا ماڈل قرار دیتی رہی ہیں۔ افسوس کہ جب طالبان نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی، تو وہی جماعتیں خاموش ہوگئیں۔ تادم تحریر ان جماعتوں کی جانب سے مذمت دیکھنے کو نہ ملی، بالفرض کوئی بیان آیا بھی تو وہی روایتی جملے ہونگے کہ:
”مسلمان مسلمان بھائی ہیں، دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔“
مگر سوال یہ ہے: کیا ”افغانی بھائی“ سرحد پار کر کے ”پاکستانی بھائی“ پر حملہ کرتا ہے؟
آج ہماری بہادر افواج ان نمک حراموں کو ان کی اوقات یاد دلا رہی ہیں۔ مگر افسوس، ملک کے اندر چند ایسے چہرے بھی موجود ہیں جنہیں افغانیوں کی شکست کا غم پاکستانی شہداء کی قربانیوں سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک نہ پاکستان کی سالمیت کی کوئی اہمیت ہے، نہ افواجِ پاکستان کی قربانیاں۔ ان کا ایمان صرف اپنے ''رہنماؤں '' اور ''جماعتی نظریات'' تک محدود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا۔ سویت یونین کے قبضے سے لے کر امریکی حملے تک، ہر موقع پر پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دی۔ اگر پاکستان یہ کردار ادا نہ کرتا تو شاید افغانستان کی کئی نسلیں مٹ چکی ہوتیں۔ مگر جواب میں کیا ملا؟ دھوکہ، دشمنی اور دہشت گردی۔
خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک آج کے حالات پر پورا اترتا ہے:
''یہ ایسے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کو قتل کریں گے مگر بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔''
طالبان کا حال بھی یہی ہے، مسلمان پاکستان کے خلاف حملے، مگر بت پرست بھارت سے دوستی!
”آپریشن تندور“ اسی دوغلے پن کی عملی تصویر ہے۔
جس طرح ”آپریشن سندور“ میں پاکستان کی افواج نے دشمن کو عبرتناک شکست دی تھی، اور بھارتی شکست کی گواہی ہر دوسرے دن صدر ٹرمپ دے رہے ہوتے ہیں، اب تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دشمن کا چہرہ بدل گیا ہے، مگر پاکستان دشمن سوچ وہی ہے، سرحد کے اُس پار بھی، اور بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان واضح پیغام دے:
نہ ہم نے سندور والوں کو بخشا تھا،
نہ ہی تندور والوں کو چھوڑیں گے۔
پاکستان ایک ایٹمی قوت، ایک نظریاتی اسلامی ریاست، اور ایک ایسی قوم ہے جو اپنی عزت و سالمیت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ہماری افواج، ہمارا ایمان، اور ہماری وحدت۔ یہی اس خطے میں امن و انصاف کی وہ دیوار ہے جسے کوئی سازش نہیں گرا سکتی۔ الحمدللہ رب العالمین
پاکستان زندہ باد
پاک افواج پائندہ باد
واپس کریں