محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان کی سب سے بڑی داخلی مشکلات میں سے ایک مذہبی و سیاسی شدت پسندی اور فرقہ واریت ہے، جو ہماری قومی یکجہتی کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے۔ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی، یا سیاسی شناختوں کے حوالے سے ن لیگی، انصافی، جیالے، لبیکئیے، جماعتیئے، مہاجر وغیرہ یہ تقسیمیں صرف نظریاتی اختلافات تک محدود نہیں رہیں بلکہ قومی اتحاد کی بنیادیں ہلا چکی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہی نفرت آمیز ماحول بسا اوقات کالعدم اور متعصبانہ تنظیموں کو جنم دیتا ہے، یا انہیں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور معاشرتی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ریاستِ پاکستان نے مختلف ادوار میں اُن گروپوں پر پابندیاں عائد کیں جو تشدد، فرقہ وارانہ فساد یا علیحدگی پسندانہ ایجنڈا چلا رہے تھے جیسا کہ: جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، سپاہِ صحابہ پاکستان، تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان، خدامُ الاسلام، اسلامی تحریک پاکستان، جماعتُ الانصار، جماعتُ الفرقان، حزبُ التحریر، لشکرِ اسلام، انصارُ الاسلام، حاجی نامدار گروپ، تحریکِ طالبان پاکستان۔ بلوچستان کے تناظر میں علیحدگی پسند گروہ: بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)، بلوچستان ریپبلکن آرمی (BRA)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF)، لشکرِ بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، بلوچستان مسلح دفاع، بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان واجا لبریشن، یونائیٹڈ بلوچ آرمی، بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی۔
اسی طرح سندھ میں سرگرم علیحدگی پسند عناصر: جئے سندھ متحدہ محاذ، سندھو دیش لبریشن آرمی، سندھو دیش ریولوشنری آرمی۔ طلبہ و نوجوانوں کے کچھ گروہ بھی نگرانی یا پابندی کی فہرست میں شامل رہے جیسے: شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکزِ سبیل آرگنائزیشن، تنظیمِ اہلِ سنت و الجماعت (گلگت بلتستان)، انجمنِ اسلامیہ، مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، تنظیمِ نوجوانانِ اہلِ سنت، خانہِ حکمت گلگت بلتستان، اور پیپلز امن کمیٹی۔
یہ طویل فہرست ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ شدت پسندی کا مسئلہ کسی ایک طبقے، صوبے یا نظریے کا نہیں بلکہ ایک ملک گیر اور کثیرالجہتی چیلنج ہے۔
بدقسمتی سے، ان تنظیموں کو ابتدا میں کھلے عام سرگرم ہونے دیا گیا۔ جب ان کے اثرات ناقابلِ برداشت ہو گئے، تب پابندی کا اعلان ہوا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کو اب وقتی نہیں بلکہ مستقل اور نظامی نوعیت کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ قانون کی حکمرانی شدت پسندی کے خلاف پہلا اور سب سے مؤثر دفاع ہے۔ اگر قانون سب کے لیے برابر ہو، تو شدت پسندی کی گنجائش خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ”پابندی لگاؤ، پھر بھول جاؤ“ کی روایت بن چکی ہے۔ ماضی میں پی ٹی آئی حکومت نے بھی تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کی تھی، لیکن چند ”کرم فرماؤں“ کی مہربانی سے وہ جماعت دوبارہ فعال ہوگئی۔ اسی طرح چند کالعدم جماعتیں نئے نام سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔ یہی دوہرا معیار شدت پسندی کے خلاف ریاستی بیانیے کو کمزور کر دیتا ہے۔
تحریکِ لبیک کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ مذہبی نعروں اور عوامی جذبات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرنے والی اس جماعت نے فیض آباد دھرنے، اسلام آباد مارچ اور دیگر احتجاجی مظاہروں کے ذریعے واضح کیا کہ جب احتجاج قانون کے دائرے میں رہے تو جمہوری حق ہے، لیکن جب املاک کو نقصان پہنچایا جائے، سڑکیں بند ہوں اور قانون ہاتھ میں لیا جائے تو یہ قومی مفاد کے خلاف ہے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مفتی منیب الرحمان جیسے جید عالم دین نے بھی اسلام آباد مارچ کی مخالفت کی، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ مذہبی طبقے میں بھی شدت پسندانہ رویوں کے خلاف فکری بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ کئی دینی ادارے اور علما اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دین تشدد کی توجیہ نہیں بلکہ امن، عدل اور ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے۔
مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض پابندیوں پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان گروہوں کے مالی نیٹ ورک، سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور فکری آماجگاہوں کو ختم کرے۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں شدت پسندی اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے۔ اگر فکری اور مالی بنیادیں کاٹ دی جائیں، تو شدت پسندی خود بخود کمزور ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ کام صرف حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے معاشرتی، تعلیمی اور مذہبی سطح پر مشترکہ جدوجہد ضروری ہے۔ نصابِ تعلیم میں برداشت، تحقیق، اختلافِ رائے کا احترام اور قومی ذمہ داری جیسے مضامین کو شامل کیا جائے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا بھی شدت پسندی کے پھیلاؤ یا خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی مذہب کو ووٹ بینک بنانے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ مذہبی جذبات سے کھیلنا وقتی فائدہ دیتا ہے مگر قوم کو مستقل تقسیم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سیاست اگر خدمت اور شفافیت پر مبنی ہو تو مذہب اس کی اخلاقی بنیاد بنتا ہے، لیکن اگر سیاست ذاتی مفاد کی قید میں ہو، تو مذہب اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔ آخرکار اصل قوت عوامی شعور ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نفرت، تشدد اور تعصب کو اپنے معاشرے سے ہمیشہ کے لیے ختم کریں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور یہی سبق ہماری سیاسی و سماجی زندگی کی بنیاد ہونا چاہیے۔
قائداعظم محمد علی جناح کا خواب ایک ایسا پاکستان تھا جو رواداری، قانون کی بالادستی اور انصاف پر قائم ہو، ایک ایسا ملک جہاں ہر شہری کو برابری کا حق حاصل ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بیرونی خطرات کی طرح اپنے ”اندر کے دشمن“ یعنی شدت پسندی کو بھی شکست دیں۔ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ علم، مکالمے اور برداشت سے جیتی جا سکتی ہے۔ اگر ہم نے آج ہی قدم نہ اٹھایا تو یہی شدت پسندی ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو اسی تاریکی میں دھکیل دے گی جس کا خمیازہ ہم دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا آئیں، آج عہد کریں کہ ہم ایک پرامن، مضبوط اور خوشحال پاکستان کے لیے متحد ہوں ایسا پاکستان جو نفرت نہیں، محبت کا استعارہ بنے۔
واپس کریں