دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بڑھتی غربت: ملکی استحکام کے لیے ٹائم بم
No image عالمی بینک کی رپورٹ جس کا عنوان خوشحالی کی طرف رفتار کی بحالی: پاکستان کا غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ“ ہے، پریشان کُن طور پر یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ 2001 میں 64.3 فیصد کی بڑی کمی کے بعد 2018 میں غربت کی سطح 21.9 فیصد ہوگئی تھی مگر اس کے بعد 2023-24 میں یہ سطح بڑھ کر 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ (غربت کی اس سطح کا اندازہ روزانہ 3.20 امریکی ڈالر پر لگایا گیا ہے) ۔
عالمی بینک کی دلیل یہ ہے کہ وہ اقتصادی ماڈل جس نے ابتدائی کامیابیاں دلائی تھیں، اب اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے، جس کے تحت 2018 میں 14 فیصد آبادی جھٹکوں کا سامنا کرنے پر دوبارہ غربت میں گرنے کے خطرے سے دوچار رہی۔ یکے بعد دیگرے آنے والے شدید بحرانوں، کووِڈ-19، اقتصادی عدم استحکام، تباہ کن سیلاب، اور ریکارڈ مہنگائی نے نظام کی کمزوریوں کو مزید بے نقاب کیا ہے جس سے بہت سے لوگ کم پیداواری سرگرمیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ورلڈ بینک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 44.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کا تخمینہ یومیہ 4.20 ڈالر کی کم درمیانی آمدنی کی سطح کو بنیاد بنا کر لگایا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ نہ صرف بیرونی عوامل ہیں جن میں سیلاب سے ہونے والی تباہی بھی شامل ہے بلکہ عوامی خدمات کی نامکمل اور غیر مساوی منتقلی کی وجہ سے سروس کی ناقص فراہمی، رجعت پسند ٹیکسیشن (تمام ٹیکس وصولیوں کا تقریباً 75 سے 80 فیصد حصہ) اور کمزور احتساب بھی ہے۔ ورلڈ بینک نے مزید نوٹ کیا کہ دیہی غربت شہری غربت سے دوگنی ہے اور یہ مختلف علاقوں میں مختلف سطح پر ہے۔ اسلام آباد میں کم از کم 3.9 فیصد سے لے کر بلوچستان کے ضلع خضدار میں 71.5 فیصد تک۔
پاکستان میں غربت کی سطح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ سماجی و اقتصادی بدامنی کے اچانک پھوٹ پڑنے کے لیے ایک ٹائم بم کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے اس امکان کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ عالمی بینک خبردار کرتا ہے کہ ساختی عدم توازن کو دور کرنے، صدمات کے دوران دوبارہ غربت میں گرنے سے بچنے اور دور دراز کے علاقوں میں موجود مسلسل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اب جرأت مندانہ پالیسی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
بظاہر لگتا ہے کہ یہ اقدامات بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے جاری سات ارب ڈالر کے ایکسٹنڈڈ فنڈ سہولت پروگرام کے تحت کیے گئے ہیں؛ تاہم، پروگرام کے ڈیزائن پر غور کرنے سے کئی خامیاں سامنے آتی ہیں، جن میں شامل ہیں:(i) آمدنی کے ذرائع پر توجہ دینے کی بجائے محض محصولات میں اضافے پر زور دینا، جس کے نتیجے میں رجعت پسندانہ ٹیکسوں پر مسلسل بھاری انحصار برقرار رہتا ہے، جیسے کہ سیلز ٹیکس کے رجعت پسندانہ طریقے کے تحت لاگو کیے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکسز جو براہِ راست ٹیکسوں میں جمع کیے جاتے ہیں اور کل براہِ راست محصولات کا تقریباً 75 فیصد بنتے ہیں؛(ii) رواں سال میں بھی موجودہ اخراجات کو کُل خرچ کا 93 فیصد رکھنے کا بجٹ بنایا گیا ہے، جبکہ پنشن اصلاحات کا اطلاق 2024 سے بھرتی ہونے والے تمام نئے ملازمین پر ہوگا؛ یا دوسرے الفاظ میں، یہ ایک ایسی پالیسی تبدیلی ہے جس کے مثبت نتائج 25 سے 30 سال بعد ہی سامنے آ سکتے ہیں۔(iii) پالیسی ریٹ غیر معمولی طور پر زیادہ رکھا گیا ہے (زیادہ تر علاقائی ممالک کے مقابلے میں دوگنا)؛(iv) پاکستان میں یوٹیلیٹی ریٹس مقابلتی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ملکی ترقی کی شرح کم ہے اور پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی سطح پر غیر مسابقتی بن رہی ہیں؛(v) بیرونی اور داخلی قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار برقرار ہے اور موجودہ زر مبادلہ ذخائر زیادہ تر قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں جو کہ موجودہ اخراجات کا ایک بڑا حصہ بن چکا ہے۔
لہٰذا حکومت پر فوری طور پر یہ ضرورت عائد ہوتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی تقلید نہ کرے بلکہ خود مختار اور غیر روایتی پالیسی اصلاحات تجویز کرے جس کا آغاز موجودہ اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی سے کیا جائے (جس کے لیے کچھ اشرافیہ طبقوں کو کم از کم دو سے تین سال کے لیے کافی قربانیاں دینی ہوں گی) جو بالواسطہ طور پر ٹیکس کی وصولیوں میں دباؤ کو کم کرے اور ٹیکس ڈھانچے کو اس بنیاد پر اصلاح کرے کہ ادا کرنے کی صلاحیت کے مطابق ٹیکس لگائے جائیں، نہ کہ ایسے ریگریسیو ٹیکس پر جو غربت زدہ طبقے پر امیروں کی نسبت زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔
بشکریہ بزنس ریکارڈر
واپس کریں