دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ورلڈ اکنامک آئوٹ لک کی رپورٹ اور زمینی حقائق
No image آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آئوٹ لک کی رپورٹ جاری کر دی‘ جس میں کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت کو تجارتی و جغرافیائی سیاسی غیر یقینی کا سامنا ہے جبکہ پاکستان میں رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ ہدف سے کم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ پاکستان میں معاشی شرح نمو 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کر رکھا ہے جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 1.2 ارب ڈالرز کے سٹاف لیول معاہدہ رواں ہفتے طے پا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ‘ 1.4 ارب ڈالرز ریزیلینس فنڈ کے جائزے پر اتفاق متوقع ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام نے پاکستان کی 370 ارب ڈالرز معیشت کو سہارا دیا۔ مہنگائی‘ کرنسی ریٹ میں کمی اور مالی بحران کے بعد استحکام کی جانب پیش رفت ہے۔
اس حقیقت سے کسی طرح انکار ممکن نہیں کہ جب سے پاکستان نے اپنی معیشت کی بہتری کیلئے آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں پر انحصار کرنا شروع کیا ہے‘ نہ معیشت میں بہتری آئی اور نہ بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پایا جا سکا‘ الٹا پاکستان ان مالیاتی اداروں کے قرضوں تلے دب کر اپنی حمیت اور خودمختاری کو بھی دائو پر لگا چکا ہے‘ حالت یہ ہے کہ یہ ادارے اب پاکستان کو ڈکٹیشن دینے اور اپنی شرائط منوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ بے شک حکومتی اعداد و شمار اور اہداف کے حصول کے دعوے اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں مگر زمینی حقائق مسلسل ان دعوئوں کے برعکس نظر آرہے ہیں۔ عام آدمی کی مشکلات میں روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اس کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہے‘ حکومت کی طرف سے کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا رہا اور نہ حکومتی سطح پر اسکی مشکلات کم کرنے کے اقدامات ہوتے نظر آرہے ہیں۔ آئے روز بجلی‘ گیس اور پٹرولیم کے نرخ بڑھا کر ان کیلئے مہنگائی کے نئے طوفان لائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 8 پیسے فی یونٹ بجلی پھر مہنگی کر دی گئی۔ حکومت کے ایسے اقدامات مہنگائی میں کس طرح کمی لا سکتے ہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف اپنی ہر قسط کی ادائیگی پر نئی شرائط سامنے لے آتا ہے جسے حکومت عوامی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے من و عن تسلیم کرتی جا رہی ہے۔ حکومت کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ جب تک وہ آئی ایم ایف جیسے ساہوکار اداروں سے مستقل چھٹکارا پانے کے مؤثر اقدامات نہیں کرتی‘ نہ معیشت میں بہتری لا سکتی ہے‘ نہ مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پا سکتی ہے۔بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں