
تحریر: امیر یوسفزئی ۔اگرچہ دوسری عالمی جنگ انسانوں کے لیے بربادی کا باعث بنی، لیکن مغربی بینکاروں کے لیے یہ سونے کی کان ثابت ہوئی۔یہی وہ جنگ تھی جس نے دنیا کے مالیاتی، اقتصادی، معاشی اور جغرافیائی نقشے کو بدل کر رکھ دیا۔
جغرافیائی تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ امریکہ کو ملا، اور مالیاتی تبدیلی کا فائدہ بھی۔ جغرافیہ کی تبدیلی نے برطانیہ اور فرانس کی طاقت کو توڑا اور ان کی جگہ امریکہ کو دی، جبکہ مالیاتی تبدیلی نے پیرس اور لندن سے معیشت اور مالیات کا مرکز نیویارک منتقل کیا۔
یہی دو چیزیں تھیں جنہیں امریکہ نے دنیا کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔
لیکن آج انہی دو اہم عناصر میں سب سے بڑا عنصر یعنی امریکہ کا مالیاتی نظام آہستہ آہستہ جنوبی دنیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے مؤثر محاذ BRICS اتحاد ہے۔ یہ معاشی اور مالیاتی اتحاد اس لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ ڈالر کا متبادل کرنسی نظام اور متبادل تجارتی مارکیٹ پیدا کی جا سکے۔
مغربی بینکار اس تبدیلی کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر دنیا کا مالیاتی نظام نیویارک سے بیجنگ، شنگھائی، ریوڈی جنیرو، جوہانسبرگ اور ماسکو منتقل ہو گیا تو وہ دیوالیہ ہو جائیں گے اور عالمی نظام سے باہر ہو جائیں گے۔
چونکہ مغربی بینکاری نظام فوجی صنعتی کمپلیکس سے جڑا ہوا ہے، اس لیے انہیں جنگوں اور جنگی مراکز کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی اسٹریٹیجک اور تجارتی راستوں میں تنازعات پیدا ہوں تاکہ ان راستوں پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ مصر کا سویز کینال اس کی بڑی مثال ہے، جو آج بھی مغربی مالیاتی طاقتوں کے قبضے میں ہے۔
جیسے جیسے BRICS اتحاد میں دنیا کے جنوبی ممالک شامل ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے مغرب کا سویز کینال پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن مغربی طاقتوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ سویز کینال ان کے لیے ایک دن نقصان دہ بن جائے گا، اسی لیے انہوں نے اس کا متبادل تلاش کیا، جسے North-South Corridor کہا جاتا ہے۔
یہ تجارتی راستہ مشرقی ایشیا، چین، اور جنوبی ایشیا کو خلیج فارس کے ذریعے ایران سے، اور پھر ایران کے زمینی راستے سے کیسپین سمندر، روس، سینٹ پیٹرز برگ اور بالٹک سمندر سے جوڑتا ہے۔
اس کے علاوہ چین پہلے ہی قازقستان کے راستے اپنا تجارتی نیٹ ورک مشرقی یورپ اور روس سے جوڑ چکا ہے۔
لیکن اب یہ تمام بڑے منصوبے مغربی بینکاروں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی مزاحمت کا شکار ہو رہے ہیں، اور یہ مزاحمت ایک نئی نیابتی جنگ کی شکل میں ظاہر کی جا رہی ہے، جس کے لیے ان کے پاس ایک آزاد پراکسی ملک آذربائیجان موجود ہے۔
برطانیہ، امریکہ، یورپی ممالک اور اسرائیل آذربائیجان کو اسلحے سے لیس کر رہے ہیں اور وہاں اپنی خفیہ ایجنسیوں کے مراکز قائم کر رہے ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ نسلی طور پر ترک النسل ہیں اور ان کا تاریخی تعلق ترکی سے ہے۔
ترکی کے لیے اس نیابتی جنگ میں یہ فائدہ ہو گا کہ اگر امریکہ، یورپ اور اسرائیل کی مدد سے آذربائیجان ارمینیا کی زمین پر واقع "زنگ زور راہداری" پر قبضہ کر لے، تو ترکی اور آذربائیجان کی سرحدیں آپس میں مل جائیں گی۔
آذربائیجان کے بہت سے ترک النسل لوگ ایران میں بھی آباد ہیں، اور منصوبہ یہ ہے کہ آذربائیجان، ترکی، امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران کے ان علاقوں کو ایران سے الگ کر کے آذربائیجان میں شامل کریں۔
اس سے اسرائیل کو یہ فائدہ ہو گا کہ ایران کو کمزور کیا جا سکے گا، اور مغرب کو یہ فائدہ ہو گا کہ North-South Corridor ناکام ہو جائے گا۔
ترکی کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ صرف آذربائیجان ہی نہیں، بلکہ چین کے سنکیانگ تک ترک النسل اقوام کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں لے آئے گا۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ترکی سے لے کر چین کے سنکیانگ (جسے مشرقی ترکستان بھی کہا جاتا ہے) تک تمام اقوام نسلی طور پر ترک النسل ہیں، جن میں ترکمانستان، قازقستان، ازبکستان بھی شامل ہیں۔
اسرائیل، امریکہ، برطانیہ چاہتے ہیں کہ یہ پورا خطہ ترکی کے سیاسی کنٹرول میں آ جائے۔
یاد رکھیں، اس خطے کو "گریٹر توران" یا "گریٹر ترکستان" بھی کہا جاتا ہے۔
موجودہ نیابتی جنگ میں، یوکرین کے بعد یہ دوسرا سب سے بڑا محاذ بن چکا ہے۔
ایران کے خلاف جنگ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے، اور شام کی حکومت کی تبدیلی بھی۔
اگر مغرب اور ان کے اتحادی بشمول ترکی و آذربائیجان اس منصوبے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف روس عالمی سطح پر الگ تھلگ ہو جائے گا بلکہ چین کی "بیلٹ اینڈ روڈ" منصوبے کو بھی سخت نقصان پہنچے گا۔
اور اس صورتحال میں دنیا کی 80 فیصد آبادی کے معاشی، مالیاتی اور سیاسی آزادی کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔
واپس کریں