
دوسری اینگلو-افغان جنگ (1878–1880) میں افغانستان کو شکست اور برطانیہ کو فتح حاصل ہوئی۔26 مئی 1879 کو افغان امیر محمد یعقوب خان اور برطانوی نمائندے سر پیئر لوئس نیپولین کیوگنری کے درمیان افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں گندمک کے مقام پر ایکٗ معاہدہ طے پایا۔ جسے معاہدۂ گندمک کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت افغانستان نے اپنی سرزمین کا ایک وسیع علاقہ برطانوی راج کے سپرد کر دیا تاکہ جنگ ختم ہو اور مزید قبضے کو روکا جا سکے۔اس میں افغانستان کو ایک باجگزار ریاست (Protectorate) کی حیثیت دے دی گئی۔
معاہدے کی اہم شقیں :
• علاقوں کی حوالگی:
افغانستان نے کرم درہ، خیبر پاس اور دیگر اسٹریٹجک علاقوں کا کنٹرول برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا۔ اور یوں پشین ،کوژک ، پہاڑ تک ، سبی ، کرم ، زازی قبیلے سے ملحقہ سرحدات اور ہفتہ چاہ سے لنڈی کوتل تک کا علاقہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔
• خارجہ پالیسی پر کنٹرول:
افغانستان نے آزادانہ طور پر بیرونی تعلقات قائم کرنے کا حق چھوڑ دیا اور خارجہ پالیسی کا اختیار برطانوی حکومتِ ہند کے سپرد کر دیا۔
• برطانوی مشن کابل میں:
کابل میں ایک مستقل برطانوی نمائندہ مقرر کیا گیا جو افغانستان کی خارجہ پالیسی اور دیگر امور کی نگرانی کرے گا۔
• سالانہ وظیفہ:
ان رعایتوں کے بدلے میں امیرِ افغانستان کو چھ لاکھ (600,000) روپے سالانہ وظیفہ دیا گیا۔ یوں وہ تاجِ برطانیہ کا وظیفہ خوار بن گیا۔
⸻
عہد شکنی اور جنگ کا دوبارہ آغاز
عہد شکنی افغانوں کی سرشت میں شامل رہی ہے۔
3 ستمبر 1879 کو کابل میں نئے تعینات شدہ برطانوی سفارتی مشن کے تمام اراکین کو قتل کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ عہدِ جاہلیت میں بھی سفیروں اور سفارتی نمائندوں کا قتل حرام سمجھا جاتا تھا۔
اس عہد شکنی کے بعد جنگ دوبارہ بھڑک اٹھی، جو 1880 میں اختتام پذیر ہوئی۔
جنگ میں شکست کے بعد افغانوں نے معاہدے کو دوبارہ تسلیم کیا اور برطانوی حکومت نے عبدالرحمن خان کو افغانستان کا نیا امیر مقرر کیا لیکن افغانستان کے اندر اپنی محدود فوجی موجودگی برقرار رکھی۔
یہ “گریٹ گیم” کا دور تھا جس میں روس اور برطانیہ کے درمیان وسطی ایشیا پراثرورسوخ کے لیے کشمکش جاری تھی۔
اس وقت افغانستان کی سرحدیں چار ممالک سے ملتی تھیں:
ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے ساتھ: تقریباً 2430 کلومیٹر
ایران کے ساتھ: 945 کلومیٹر
شمال میں روس کے ساتھ: 2149 کلومیٹر
چین کے ساتھ: 76 کلومیٹر
روس کے ساتھ سرحدی معاہدہ :
1873 میں برطانیہ اور روس کے درمیان ایک ابتدائی معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق دریائے آمو افغانستان کی شمالی سرحد قرار دیا گیا۔
تاہم روس نے وسطی ایشیا میں اپنی توسیع جاری رکھی اور بالآخر دریائے آموُ کو پار کرکے پنجدہ نخلستان پر قبضہ کر لیا۔
اس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغان بارڈر کمیشن تشکیل دیا۔ 1888 میں ایک حتمی معاہدہ طے پایا، جس کے تحت روس کو پنجدہ نخلستان رکھنے کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ وہ افغانستان کی سرزمین پر مزید پیش قدمی نہ کرے۔یوں دریائے آمو کو دونوں ممالک کے درمیان حتمی سرحد تسلیم کر لیا گیا۔
⸻
ایران کے ساتھ سرحدی معاہدہ :
ایران اور افغانستان نے 1857 کے معاہدۂ پیرس کے تحت اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات میں برطانیہ ثالث کا کردار ادا کرے گا۔
1860 کی دہائی میں سرحدی جھڑپوں کے بعد، دونوں ممالک نے 1872 میں برطانیہ کو سرحد کی حد بندی کا مکمل اختیار دے دیا۔یوں 1872 سے 1935 کے درمیان افغانستان اور ایران کے درمیان سرحد کا تعین برطانوی حکام نے مکمل کیا۔
⸻
ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے ساتھ سرحدی معاہدہ:
افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان سرحدی معاہدہ 1893 میں افغان حکمران امیر عبدالرحمن خان اور برطانوی انڈین سیکرٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان طے پایا، جسے ڈیورنڈ لائن معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کی توثیق بعد میں امیر حبیب اللہ خان (عبدالرحمن کے بیٹے) اور ان کے جانشینوں نے بھی کی۔
1930 میں محمد نادر شاہ نے اس کی دوبارہ تصدیق کی اور ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور ہندوستان کے درمیان سرکاری سرحد قرار دیا۔
ان تینوں سرحدی معاہدوں میں یہ واحد معاہدہ ہے، جس میں افغان حکمران خود فریق کے طور پر شامل رہے اور جس کی انہوں نے تین بار توثیق کی
اعتراضات اور تاریخی موقف :
دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان نے کبھی روس یا ایران کے ساتھ برطانیہ کے طے شدہ معاہدوں پر کبھی اعتراض نہیں کیا،حالانکہ ان معاہدوں میں وہ براہِ راست فریق نہیں تھے۔
جبکہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ، جس میں وہ خود فریق تھے، اسی پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔
نہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی کوئی مدت مقرر تھی،
نہُ اس میں ایسی کوئی شق شامل تھی کہ یہ معاہدہ صرف برٹش راج تک محدود ہوگا اور نہ ہی یہ شق لگائی گئی تھی کہ افغانستان کی مکمل آزادی کے بعد یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا ۔
اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو 1919 میں افغانستان کی مکمل آزادی کے بعد روسُ کے ساتھ نیا سرحدی معاہدہ ہونا چاہئے تھا ،
پھر ژار روس کے بعد سویت کے ساتھ نئے شرائط طے ہونے چاہیے تھے ،
یا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روسی سرحد جو اب ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان میں تقسیم ہو چکی ہے،افغانستان کو ان نئی ریاستوں کے ساتھ نئے سرحدی معاہدے کرنے پڑتے۔
لیکن تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ افغانستان نے کہا ہو:
“ہمارا معاہدہ تو روس کے ساتھ تھا، اب اس کے خاتمے کے بعد ہم نئی سرحدیں مقرر کریں گے۔”
ڈیورنڈ لائن اور جدید دور :
1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد پاک–افغان سرحد کو اقوامِ متحدہ نے ایک بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کیا۔
جب افغان–سوویت جنگ کے دوران سوویت طیارے اس لائن کو پار کرتے تھے،تو اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا تھا،اور اقوامِ متحدہ میں اس کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی تھیں۔
جس لیکر کے پار ان افغانوں کو دو بڑی جنگوں میں پناہ ملی ، یہ احسان فراموش آج اسے ماننے سے انکاری ہیں۔
واپس کریں