" پاکستان کے اقتدار میں اشرافیہ کی قلابازیاں" نثار نندوانی

برصغیر کی تقسیم سے ابتدائی طور پر دو ممالک وجود میں آئے ایک بھارت اور دوسرا پاکستان ، مگر دونوں کے سیاسی ڈھانچے کے بنیادی ستون میں کافی فرق تھا بھارت نے نیشنلزم کا انتخاب کیا ، مگر پاکستان نے برطانوی انگریز سامراج کے نظام کا ہاتھ تھام لیا ، مسلم لیگ کی قیادت میں پاکستان کی تحریک مذہب کی بنیاد پر تھی اور کانگریس کی سربراہی میں چلنے والی آزادی کی تحریک نیشنل ازم کی بنیاد پر تھی۔
پاکستان نے اپنا سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے تحت بنایا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور "گورنر جنرل" اپنے عہدے کا حلف لیا اور یہی لفظ "گورنر" اور "جنرل" ہمارے معشیت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا۔
گورنر جنرل ہندوستان میں برطانوی حکومت کا نمائندہ کہلایا جاتا تھا۔ اسی گورنر جنرل کو وائس رائے کا منصب بھی حاصل تھا ، گورنر جنرل کا عہدہ 1935 کے انڈین ایکٹ کے تحت طاقتور ترین عہدہ تھا اور اس عہدے پر حلف لینے کے بعد پاکستان کا منتخب وزیراعظم بھی گورنر جنرل کے ماتحت قرار پایا۔
قائد اعظم کو وزیراعظم کا عہدہ لینا چاہئیے تھا یا گورنر جنرل کا ؟ ، یہ ایک علیحدہ بحث ہے ، مگر یہ عہدہ زیادہ عرصے تک قائد اعظم کا ساتھ نہ دے سکا اور قائد کی رحلت کے بعد یہ عہدہ ڈھاکہ کے نواب خاندان کے چشم و چراغ خواجہ ناظم الدین کے حصے میں آیا اور وہ گورنر جنرل پاکستان بن گئے.
لیاقت علی خان جب اکتوبر 1951 میں قتل ہوئے تو خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھال لی ، جوں ہی خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے لیے گورنر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو آئین ساز اسمبلی کی کابینہ نے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کو ملک کا تیسرا گورنر جنرل نامزد کر دیا ، غلام محمد کا نہ تو مسلم لیگی سیاست سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ سیاسی کارکن تھے۔ وہ تو ایک بیوروکریٹ تھے جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی رضا مندی پر پہلی کابینہ میں بطور وزیر خزانہ شامل کیا گیا تھا۔
ملک کے تیسرے گورنر جنرل بیوروکریٹ غلام محمد کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو اُنہوں نے اپنے عہدے کے شخصی اختیارات کا استعمال کر کے 1953 میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو گھر بھیج دیا اور آئین ساز اسمبلی کو ختم کر دی۔
گورنر جنرل کے اس اقدام کو آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ سنا دیا ، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر کے گورنر جنرل کے اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا۔ یہیں سے پاکستان کی عدالتوں کا کردار شروع ہوا۔
پاکستان کو سیاسی طور پر پہلا بڑا جھٹکا بیوروکریٹ غلام محمد نے لگایا جسے اب عدالت عظمیٰ آئینی جواز بھی فراہم کر چکی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ گورنر جنرل نے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزرات عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا۔
واضح رہے کہ یہ وہی محمد علی بوگرہ ہیں جو اُردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی مخالفت میں تھے جس پر اُنہیں پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاست سے الگ کر کے سفارتی مشن پر برما بھیج دیا تھا ، اب یہی محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم بن گئے تھے۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی تھی کہ ابتدائی سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سانپ کی طرح پورے نظام کو جکڑ لیا تھا ، "گورنر جنرلوں" اور پہلے تین وزراء اعظم کی تعیناتی میں جمہوری اُصولوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں تھیں تاہم غیر جمہوری فیصلوں کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑے.
محمد علی بوگرہ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر کام شروع کرتے ہی خود کو مضبوط وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے چنانچہ اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر اُنہوں نے گورنر جنرل کے قانونی اختیارات کو محدود کرنے کا منصوبہ بنایا اور انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ1947 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ، دستور ساز اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی جس کے مطابق ایکٹ کے آرٹیکل 9 ,10, A-10 ، B-10 اور آرٹیکل 17 کو منسوخ کرنے کی تجویز دی گئی ، جسے اسمبلی نے فوری طور پر منظور کر لیا۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد اب گورنر "جنرل" کو یہ قانونی اختیار نہیں تھا کہ وہ منتخب وزیر اعظم کی چھٹی کروا سکیں.
قرارداد کی منظوری کے بعد گورنر جنرل اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا ، گورنر جنرل غلام محمد نے 1954 میں دستور ساز اسمبلی کو ایگزیکیٹو اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحلیل کر دیا. اسی اثناء میں غلام محمد بیمار ہوئے اس لیے دو مہینے چھٹی لے کر برطانیہ چلے گئے اور گورنر جنرل کا عہدہ میجر "جنرل" ریٹائرڈ اسکندر مرزا کو سونپ دیا گیا ، یہاں سے گورنر "جنرل" اور میجر "جنرل" رشتہ ازدواج میں بندھ گئے.
گورنر جنرل بنتے ہی اُنہوں نے محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ معزول وزیر اعظم محمد علی بوگرہ جو گورنر جنرل کے اختیارات محدود کرنے کا قانونی حربہ بھی اختیار کر چکے تھے خود اپنی کرسی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے.
گورنر جنرل کے عہدے کی آڑ میں وزیر اعظم پاکستان پر ایک بار پھر وار کیا گیا اور معزول وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو واپس امریکا میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔
اب گورنر جنرل اسکندر مرزا نے بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو 12 اگست 1955 کو وزیر اعظم پاکستان بنا دیا۔ یہ دوسری بار تھا کہ ایک سول سرونٹ پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا۔
گورنر جنرل کی کوکھ سے جنم لینے والے واقعات نے پاکستان کی ترقی روک رکھی تھی اور پاکستان 1947 میں ہی کھڑا رہا اس سے آگے نا نکل سکا سونے پر سہاگہ اس بیوروکریٹ کا مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی اختلافات کی بنا پر بن نہ سکی اور انہی اختلافات کی بنیاد پر مسلم لیگ میں ایک نئی سیاسی ریپبلکن پارٹی نے جنم لیا۔
اسی اثناء میں گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات بھی بڑھنے لگے جو بالآخر چوہدری محمد علی کے استعفیٰ پر ختم ہوئے۔ چوہدری محمد علی نے وزارت عظمیٰ بھی چھوڑی اور مسلم لیگ کی پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیا۔
پاکستان کا پہلا آئین 9 سال بعد تیار ہوا اور اس آئین کی منظوری کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا جس کے بعد اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر صدارت کا حلف اٹھایا۔
اب گورنر جنرل کی جگہ صدر مملکت کا عہدہ وجود میں آگیا اور عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی کو 1956 میں وزارت عظمیٰ ملی۔ گورنر جنرل اسکندر مرزا اور وزیر اعظم سہروردی دونوں کا تعلق بنگال سے تھا ، سہروردی کو بھی بے شمار سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا ، خاص طور پر ملک میں ون یونٹ اسکیم پر مسلم لیگ ، ریپبلکن پارٹی اور عوامی لیگ کا ون یونٹ پروگرام پر الگ الگ نکتہ نظر ہونے کی بنا پر وزیر اعظم سہروردی کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ،
سہروردی نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کی تو اسکندر مرزا نے وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔ بالآخر سہروردی نے اسکندر مرزا کو استعفیٰ پیش کر دیا ، پہلے گورنر جنرل وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے رہے اب صدر نے یہ ذمہ داری اپنے ذمے اٹھا لی تھی۔
سابق گورنر جنرل اور اس وقت موجودہ صدر پاکستان صاحبزادہ اسکندر علی مرزا نے ابراہیم اسماعیل چندریگر (آئی آئی چندریگر) کو قائم مقام وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا۔
آئی آئی چندریگر کو یہ عہدہ صدر اسکندر مرزا نے اپنی خواہش پر دیا تھا ، سو صدر نے اس وزیر اعظم کو بھی دو مہینے سے زیادہ ٹھہرنے نہ دیا اور 16دسمبر1957 کو آئی آئی چندریگر سے استعفیٰ لے کر گھر روانہ کر دیا۔
بعد ازاں اسکندر مرزا نے ملک پر پہلا مارشل لاء بھی نافذ کیا اور پاکستان کے سیاسی سفر اور جمہوریت کو پٹری سے اُتار دیا۔
یہی جمہوریت آج 78 سال بعد بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گورنر "جنرل" کے عہدے نے ملکی سیاست کے ساتھ جو بدتر سلوک کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.
عہدوں کی بندر بانٹ ابتدا سے ہی شروع ہو گئی تھی ، غلط نظام کا چناؤ اور اشرافیہ کا اقتدار پر قبضے کی کوشش نے ہماری تباہی میں اہم کردار ادا کیا ان 78 سالوں میں کبھی کسی غریب مخلص سیاسی کارکن کو شریک اقتدار نہیں بنایا گیا ، یہ کرسی کا کھیل ہنوز جاری ہے پاکستان کو بیدردی سے لوٹا جا رہا ہے اور عوام کو پیٹ کے بل گرا دیا گیا ہے اب وہ پیٹ دیکھے یا کھیت دیکھے ۔
واپس کریں