جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اسرائیلی حملے میں 40 فلسطینی شہید

اسرائیل نے اتوار کو جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی غزہ پر فضائی حملہ کیا ہے جس سے 40 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود رفح سمیت جنوبی غزہ کے کچھ حصوں پر حملہ کیا۔ اسرائیل نے 120 راکٹ برسائے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا کے مطابق، اسرائیل اب تک جنگ بندی کی 47 خلاف ورزیاں کرچکا ہے اور ان واقعات میں درجنوں افراد شہید اور 143 زخمی ہوچکے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق، اس پیش رفت نے امریکا کی ثالثی میں ہونے والی ایک ہفتے پرانی جنگ بندی کے مستقل امن میں بدلنے کی امیدوں کو کم کر دیا ہے جبکہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اسرائیلی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ حماس نے غزہ کے اندر اسرائیلی فورسز پر متعدد حملے کیے جن میں ایک راکٹ حملہ اور ایک سنائپر حملہ شامل ہیں۔ اہلکار کے مطابق، دونوں واقعات اسرائیلی زیرِ قبضہ علاقے میں پیش آئے، یہ جنگ بندی کی واضح خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب، حماس کے سینئر رہنما عزت الرشق نے کہا کہ فلسطینی گروپ جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے جس کی بارہا خلاف ورزی کا الزام اس نے اسرائیل پر عائد کیا۔
ادھر، حماس نے مزید 2 مغویوں کی لاشیں اسرائیل کے سپرد کر دیں جبکہ ناجائز صہیونی ریاست نے بھی مزید 15 فلسطینیوں کی میتیں حوالے کر دیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی جیلوں سے اب تک 150 فلسطینیوں کی میتیں دی گئیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح بارڈر تا حکم ثانی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی مغویوں کی لاشوں کی واپسی اور طے شدہ فریم ورک کو نافذ کرنے میں حماس کے کردار کو دیکھتے ہوئے رفح بارڈر کھولنے پر غور کرے گا۔
دوسری طرف، حماس نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ قابل اعتماد اطلاعات کے مطابق حماس جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی شہریوں پر حملہ کر سکتی ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ کسی بھی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہو گی۔ حماس نے ثالثوں سے اسرائیلی جارحیت رکوانے کی اپیل کی۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل خواتین و بچوں کی رہائی میں تاخیر کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں، اسرائیل نے بحالی ڈھانچے کے لیے سامان کی ترسیل روک رکھی ہے۔ ہم نے معاہدے پر مکمل عمل کیا، کوئی خلاف ورزی ثابت نہیں ہوئی۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ حماس نے 3 حملے کیے۔ حماس نے اسرائیلی فوج پر حملوں کا الزام مسترد کر دیا۔ غاصب صہیونی ریاست کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف مزید حملے کر سکتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے اور اس کا الزام مخالف فریق پر عائد کردیا جاتا ہے۔ جن دنوں امریکی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کی بات ہو رہی تھی، اس مؤقر جریدے کے اداریوں میں تب بھی بار بار یہی سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ جنگ بندی معاہدہ تو ہو جائے گا لیکن اس پر عمل درآمد کو کون یقینی بنائے گا؟ امریکا خود بھی قابلِ اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں وہ ہمیشہ اپنا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ہی ڈالتا ہے۔ امریکا کی اسی حرکت کی وجہ سے دو برس تک جنگ بندی کی نوبت نہیں آئی کیونکہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے پیش ہونے والی قراردادوں کو وِیٹو کر دیتا ہے۔ امریکی اور یورپی عوام اس بات کے لیے داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مسلسل احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کی جس میں امریکا مجبور ہوگیا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرے۔
غاصب صہیونی ریاست اور حماس کے مابین اس وقت جو باتیں تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم معاملہ رفح کراسنگ کا بند ہونا ہے جو تقریباً ڈیڑھ سال سے بند ہے۔ جب تک یہ کراسنگ نہیں کھلتی تب تک غزہ میں امدادی سامان کی کھیپ اس طرح نہیں پہنچ سکتی جیسے کہ معاہدے میں اس کے پہنچانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ امدادی سامان کے علاوہ وہاں ایسی بھاری مشینوں کی بھی ضرورت ہے جو اس ملبے کو ہٹا سکیں جو غزہ میں اسرائیلی بمباری کے باعث عمارتوں کے تباہ ہونے سے اکٹھا ہوا۔ اسی ملبے کے نیچے وہ لاشیں بھی دبی ہوئی ہیں جنھیں کی حوالگی کا اسرائیل بار بار مطالبہ کرتا ہے۔ حماس کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اسے لاشیں اپنے پاس رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن انھیں ملبے کے نیچے سے اس وقت تک نہیں نکالا جا سکتا جب تک خصوصی آلات اور بھاری مشینری موجود نہ ہو۔
افسوس ناک اور قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ مسلم ممالک اس صورتحال میں صرف خاموش تماشائیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے محض مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں یا وہ امریکا کی جانب سے پیش کیے گئے نکات پر ہاں میں ہاں ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ ایسے رویوں سے حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لیے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو متحد ہو کر ایسی حکمت عملی اپنا ہوگی جس سے امریکا اور غاصب صہیونی ریاست پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے کہ اب اس مسئلے کو حل کیے بغیر چارہ نہیں۔ جب تک کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جاتا اس وقت تک مسئلہ فلسطین کے حل کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اس خواب کے حقیقت میں ڈھلنے کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں