دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دوحہ مذاکرات۔طاہر سواتی
No image دوحہ میں پندرہ گھنٹے کے تعطل کے بعد آخر کار افغانستان اور پاکستانی وفد کے درمیان براہ راست بات چیت شروع ہو گئی۔ اس سے پہلے قطری میزبان دونوں وفود سے الگ الگ ملاقات کر کے درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
فرزند ملا عمر شروع میں بڑے اونچے لہجے میں تھا۔ اس نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے دھمکی دی کہ پاکستان فوری طور پر جنگ بندی کرے ورنہ ہم دوسرا راستہ اپنائیں گے، جس پر پاکستانی وفد نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم واپس چلے جاتے ہیں، آپ دوسرا راستہ اپنا لیں، اس کے بعد مذاکرات کر لیں گے۔ اس کے بعد ملاؤں کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔
ایک موقع پر تو وہ ملائیشیا کے وزیر اعظم کو درمیان میں لے آئے، جس نے وزیر اعظم شہباز شریف کو فون کر کے جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ دراصل وہ چاہتے تھے کہ بات صرف جنگ بندی اور افغان ٹرانزٹ کی بحالی تک محدود رہے، ٹی ٹی پی یا سرحدی دراندازی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر جان چھڑائی جائے۔ کیونکہ ہیبت اللہ کی ہدایت کے مطابق نہ یہ ٹی ٹی پی کو نکال سکتے ہیں نہ پاکستان کے خلاف ان کی کارروائیوں کو روک سکتے ہیں۔
لیکن شہباز شریف اور پاکستانی وفد اسی ایک موقف پر قائم رہے کہ جنگ ٹی ٹی پی کی دراندازی سے شروع ہوئی ہے، اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، جنگ بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اور بالآخر ملا یعقوب، جو دو دن قبل ڈیورنڈ لائن کو ہی ماننے سے انکاری تھے، وہ اس نقطے پر آ گئے کہ "ہماری سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور ہم سرحدوں کا احترام کریں گے"۔ ابھی مزید بات چیت اگلے ہفتے ترکی میں ہو گی۔
یہاں ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے۔ پاکستان میں افغان طالبان کے ہمدرد مذہبی جماعتیں اکثر ایک نکتہ اٹھاتی ہیں کہ پاکستان امریکہ کا غلام ملک ہے جس نے افغان جنگ میں ان کو ادھیڑیے، اس لیے طالبان کیسے ان پر اعتبار کریں۔
گزارش یہ ہے کہ طالبان گزشتہ دس برسوں سے کس برادر اسلامی ملک میں دفتر کھول کر انقلاب لا رہے تھے؟ وہاں امریکہ کا سب سے بڑا اڈا یعنی سینٹرل کمانڈ ہے، جہاں سے افغانستان کا پورا آپریشن ہو رہا تھا، لیکن اس ملک کے خلاف تو انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔
اسی طرح اگلے ہفتے جس ترکی میں مذاکرات ہو رہے ہیں، وہ نیٹو کا رکن ہے اور ان کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے، نہ افغان طالبان ان پر کافروں کے ساتھ دوستی کا طعنہ دے سکے نہ پاکستان میں جماعت اسلامی یا دیگر جماعتوں کو اردوان کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت ہوئی۔
اس معاہدے پر سب سے بہترین تجزیہ افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"پاکستان نے افغان طالبان کو دوحہ میں مذاکرات کے لیے ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا جہاں ان کے پاس انکار یا شرائط عائد کرنے کا اختیار نہ تھا، کیونکہ قطر ہی وہ مقام ہے جہاں طالبان کو حکمرانی کی بین الاقوامی شناخت ملی۔ پاکستان نے مذاکرات کے ذریعے طالبان کو ایک دو رخی دباؤ میں مبتلا کر دیا۔ پاکستان نے اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے دنیا کی نظروں میں ثابت کر دیا کہ طالبان حکومت یا تو جان بوجھ کر فتنہ الخوارج کی حمایت کرتی ہے یا پھر ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
اگر طالبان ٹی ٹی پی کی نمائندگی کرتے ہیں تو انہیں اس کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون کرنا ہو گا۔ اور اگر نہیں کرتے، تو ٹی ٹی پی کو مشترکہ دشمن مان کر اس کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔
اس حکمت عملی کے ذریعے پاکستان نے عالمی سطح پر یہ تاثر کامیابی سے اجاگر کیا کہ افغان طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں، خواہ مرضی سے یا کمزوری کے باعث۔ ترکی کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے پر عملدرآمد طالبان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو گا، جبکہ ٹی ٹی پی کی غیر موجودگی اس سارے عمل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ آخر میں، طالبان کو مجبوراً پاکستان کے اثر و رسوخ میں آنا پڑے گا، چاہے وہ اس پر راضی ہوں یا نہ ہوں....."
واپس کریں