دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خیبر پختونخوا میں بادل پٹھنے کی غلط رپورٹنگ اصل ماحولیاتی بحران کو چھپا رہی ہے۔آصف مہمند،عارف احمد
No image ماہرین نے کلاؤڈ برسٹ کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے، جبکہ مون سون کی طوفانی بارشوں نے خیبر پختونخوا کو شدید متاثر کیا ہے۔ بارشوں اور فلیش فلڈز کے نتیجے میں اب تک 385 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، مون سون نے صوبے میں موجودہ آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی کو بےنقاب کردیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں طوفانی مون سون بارشوں، فلیش فلڈز اور لینڈ سلائیڈزنے شدید تباہی مچائی ہے۔ صوبے کے 13 اضلاع اس وقت بحرانی کیفیت کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت نے سیلاب ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد اب تک 385 تک پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ اب بھی کیچڑ اور ملبے سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق 14 سے 20 اگست تک خیبر پختونخوا میں سیلاب اور بارشوں سے 385 افراد جاں بحق ہوئے۔ ضلع بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 228 اموات ہوئیں۔ سب سے افسوسناک سانحے میں ایک ہی خاندان کے 40 افراد بہہ گئے۔ دیگر اضلاع میں ہلاکتیں یوں رہیں: شانگلہ 36، صوابی 33، مانسہرہ 25، باجوڑ 22، سوات 20، دیر لوئر 5، بٹگرام 3، نوشہرہ 2 اور ہری پور میں 1۔ تور غر، جنوبی وزیرستان، چارسدہ، مہمند اور مردان میں جانی نقصان نہیں ہوا۔
بونیر کا گاؤں قدر نگر مکمل تباہ ہو گیا جہاں ایک شخص عمر خان اپنے خاندان کے 24 افراد کو کھو بیٹھا۔ شمالی اضلاع بشمول سوات کے شہر مینگورہ میں بڑی تباہی آئی، جہاں مکانات، دکانیں اور پل منہدم ہو گئے۔ بجلی، انٹرنیٹ اور ٹریفک نظام مفلوج ہے اور لوگوں کو صاف پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے متاثرین کو معاوضہ دینے اور نئے مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے نے 9 اضلاع میں 89 ٹرک غیر غذائی سامان بھیجا ہے جبکہ سرکاری کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور سول سوسائٹی بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
کیا واقعی کلاوڈ برسٹ ہوا تھا؟
حالیہ مون سون کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد مقامی، قومی اور حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے بھی بونیر میں تباہی کو " کلاؤڈ برسٹ" سے جوڑ دیا۔ تاہم، ماہرینِ موسمیات ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کلاؤڈ برسٹ یا بادل کا پٹھنا ایک غیر معمولی موسمیاتی مظہر ہے اور اس کی تعریف کے مطابق ایک گھنٹے کے اندر 100 ملی میٹر یا اس زیادہ ہوجائے تو اس کو کلاؤڈ برسٹ کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خیبر پختونخوا میں کل 23 ویدر سٹیشن ہیں لیکن ضلع بونیر میں کوئی سٹیشن موجود نہیں ہے، تو پھر کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ بونیر میں کلاؤڈ برسٹ ہوا؟ے پی ریجنل میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فہیم نے نیا دور کو یکم اگست سے 19 اگست تک روزانہ بارش کا ریکارڈ فراہم کیا جس کے مطابق 15 اگست کے دن جب تباہی ہوئی، کسی بھی سٹیشن پر ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر بارش ریکارڈ نہیں کی گئی۔ فہیم نے مزید کہا کہ اتنی بارشوں کے باوجود موجودہ اگست میں پانی کا تناسب نارمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر اگست میں بارش معمول سے کم رہی ہے، اگرچہ کچھ علاقوں میں اوسط سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزادہ عدنان نے بھی ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ ایک غیر معمولی مظہر ہے۔ اگر 20 سکویر کلومیٹر کے علاقے میں ایک گھنٹے کے اندر 100 ملی میٹر بارش ہو تو یہ کلاوڈ برسٹ کہلاتا ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے۔ سائنسی طور پر یہ ایک شدید بارش یا شاور کی طرح ہوتا ہے جو 10 سے 15 منٹ تک رہ سکتا ہے اور بعض اوقات ایک گھنٹہ بھی جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ کے لئے بہت زیادہ نمی اور توانائی درکار ہوتی ہے، اس لئے ایک ہی علاقے میں بار بار ایسے واقعات ہونا تقریباً ناممکن ہے۔
"یہ کہنا کہ بونیر یا صوابی میں مسلسل کلاؤڈ برسٹ ہوئے، سراسر گمراہ کن ہے۔"
عدنان کے مطابق پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک جیسے بنگلہ دیش، افغانستان اور میانمار میں انڈین سمر مون سون کے دوران تین گھنٹوں میں 100 ملی میٹر بارش ہونا ایک معمول کی بات ہے۔
پاکستان کے پاس اس وقت 114 ویدر سٹیشن ہیں جن میں 98 آٹومیٹڈ سٹیشن ہیں، جب کہ تین ریڈار مردان، اسلام آباد اور کراچی میں نصب ہیں۔ ان میں پی ایم ڈی کے پاس lightning detectors طوفانوں کی درست مانیٹرنگ فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شہزادہ عدنان کے مطابق کلاؤڈ برسٹ میں بجلی اور گرج بھی شامل ہوتی ہے۔ ہمارے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہ افواہیں ہیں۔ مون سون کے دوران شدید بارش معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پاکستان میں شدید موسمی واقعیات بڑھ رہے ہیں اور اس حوالے سے پی ایم ڈی نے معلومات مئی کے آخری ہفتے میں تمام صوبوں کو فراہم کر دی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحصیل لیول پر ایک ویدر سٹیشن کی ضرورت ہے تاکہ آفتوں کی نشاندہی بروقت ممکن ہو سکے۔
آب ہوائی بحران اور disaster risk reduction
ماہرینِ موسمیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمی واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بارشوں کے انداز غیر یقینی ہوتے جا رہے ہیں۔ جو بارش پہلے کئی دنوں میں ہوتی تھی، اب چند گھنٹوں میں برس کر تباہی مچا دیتی ہے۔ پاکستان علامی معاہدے سنڈائی فریم ورک برائے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کا رکن ہے، اس معاہدے کی رو سے قومی سطح پر قوانین اور پالیسی موجود ہے۔
قومی سطح پر اس حوالے سے پالیسیاں بھی موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد انتہائی کمزور ہے۔
خیبر پختونخوا نے 2024 میں جرمن ترقیاتی ادارہ (جی آئی زیڈ) کی معاونت سے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن پالیسی کا مسودہ تیار کیا، تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے یہ تاحال منظور نہیں ہو سکا۔ اس پالیسی کے تحت آفتوں سے نمٹنے کے لئے محکموں کے درمیان مظبوط روابط، جدید موسمی حلات کو ریکارڈ کرنے والے آلات کے علاوہ مقامی سطح پر حکمت عملی کو مظبوط بنا ہے۔
ایک سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے نیا دور کو نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ضلعی سطح پر آفت سے پہلے یا بعد کی منصوبہ بندی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ہم سانحے کے وقت فوری ردعمل تو دے دیتے ہیں لیکن تیاری اور عوامی آگاہی کا فقدان ہے۔ پی ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بھی سولات اٹھ رہے ہیں۔ 27 جون کے سوات سانحے میں، جب 13 سیاح دریا میں بہہ گئے تھے، مقامی حکام کے پاس لائف جیکٹس گرانے کے لئے ڈرونز دستیاب نہیں تھے۔ اس واقعے کے بعد ہی ریسکیو آپریشنز کے لئے ڈرون فراہم کیے گئے۔
خبردار کر رہے ہیں کہ جب تک ابتدائی وارننگ سسٹم اور ضلعی سطح کی منصوبہ بندی کو مضبوط نہیں کیا جاتا، صوبہ مستقبل میں ماحولیاتی آفات کے لئے انتہائی کمزور رہے گا۔
واپس کریں