دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میانوالی کی دھرتی کی فریاد، خدارا درخت بچائیں
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
پاکستان گزشتہ تقریباً چالیس برسوں سے ایک ایسے المیہ کا سامنا کر رہا ہے جس کا انجام آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے اور یہ المیہ ہے درختوں کی بے دریغ کٹائی، جو بغیر کسی حکومتی اجازت اور منصوبہ بندی کے جاری ہے۔ درختوں پر مشین چلانا درحقیقت اپنے گلے پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہے اور اس کا خمیازہ ہم آج بھگت بھی رہے ہیں جبکہ آنے والی نسلیں اس کی اور بھی بھیانک سزا بھگتیں گی۔
1980 کی دہائی میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان میں آئی جن میں سے اکثریت نے روزگار کا ذریعہ درختوں کی کٹائی کو بنایا ان کے ہاتھوں میں آنے والا چینی ساختہ ہاتھ سے چلنے والا چھوٹا آرا (چین آرا) اس تباہی میں تیزی کا موجب بنا اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان بالخصوص ضلع میانوالی میں درختوں کے دشمن یہی عناصر بن چکے ہیں جو دن رات ہمارے قدرتی اثاثے کا صفایا کر رہے ہیں اور سونے پر سہاگا یہ کہ واپڈا کی لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی نے عوام کو بڑی تعداد میں سولر پینلز کی طرف راغب کر دیا ہے جو کہ بظاہر تو توانائی کے بحران کا متبادل حل ہے مگر عمارات کی چھتوں اور زمین پر کروڑوں سولر پینلز نصب کرنے سے سورج کی حرارت براہِ راست زمین پر پڑ رہی ہے جس سے خطے کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضلع میانوالی جیسے علاقہ میں حالیہ دنوں میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کر چکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
ضلع میانوالی کا کل رقبہ تقریباً 5,840 مربع کلومیٹر (تقریباً 1,443,840 ایکڑ) پر مشتمل ہے جس میں جنگلات کا رقبہ محض 30,000 ایکڑ کے لگ بھگ رہ گیا ہے اور اگر یہی روش جاری رہی تو بہت جلد میانوالی سے سبزہ ناپید ہو جائے گا اور صحراؤں کی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ فوری طور پر ایسے قوانین نافذ کریں جن کے تحت درخت کاٹنے کے لیے باقاعدہ پیشگی اجازت نامہ لازمی ہو اور ہر ایک درخت کاٹنے کے بدلہ میں کم از کم ایک نیا درخت لگانے کی شرط پوری کی جائے۔ یہ نئے درخت لگانے کی تصدیق ضلعی یا تحصیل انتظامیہ سے کرانا لازم ہو اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے۔ میں ڈپٹی کمشنر میانوالی جناب خالد جاوید گورایہ اور دیگر ضلعی افسران سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ میانوالی کو ماڈل ضلع بنا کر ایسے قوانین پر عملدرآمد شروع کرائیں تاکہ دوسرے اضلاع بھی ان کی تقلید کریں اور ہم اپنی سرزمین کو بنجر ہونے سے بچا سکیں۔ یاد رکھیے اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو مستقبل قریب میں نہ صرف ہم پچھتائیں گے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
واپس کریں