دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سافٹ ویئر اپ ڈیٹ، جبر کی نئی شکل
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
پاکستان میں اگر کوئی اصطلاح گزشتہ چند برسوں میں غیر معمولی طور پر مقبول ہوئی ہے تو وہ ہے ’’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘‘ یہ اصطلاح کسی کمپیوٹر پروگرام یا موبائل ایپلی کیشن کے بارے میں نہیں بلکہ انسانوں کے ذہن و دل کو زبردستی بدلنے کے ایک سیاسی عمل کو طنزاً بیان کرنے کے لیے استعمال کی جانے لگی ہے۔ اس اصطلاح کا باقاعدہ ظہور 9 مئی 2023 کے بعد ہوا، جب پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کارکنوں کو تھانوں میں بند کرنے کے بعد ان سے ایسے ویڈیو بیانات ریکارڈ کروائے گئے جن میں وہ اپنے سابقہ بیانات کی تردید کرتے اور حکومت کی تعریف کرتے نظر آئے۔ اس زبردستی کی تبدیلی کو ’’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘‘ کہا جانے لگا لیکن اس عمل سے عوام میں کیا تاثر گیا؟ ایک ایسا تاثر جو شاید اپوزیشن بھی نہ دے سکتی تھی۔ عوام کو بخوبی معلوم تھا کہ ان بیانات کے پیچھے دباؤ، خوف اور دھونس ہے۔ کوئی شخص راتوں رات نظریہ نہیں بدلتا، زبان نہیں پلٹتا، اور اگر ایسا ہو بھی تو اس کی آنکھیں، لہجہ اور جسمانی زبان سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ایک مذاق بن چکا ہے، ایک بدنامی کی علامت۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو یہ مشورہ کس نے دیا؟ کیا ان کے ارد گرد وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کے دور کو نہیں سمجھتے؟ جو انسانی نفسیات سے نابلد ہیں یا جو عوامی رائے کو ناپنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟ میں یہاں دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ حکومتی ردِعمل کس طرح مثبت یا منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ ایک واقعہ لاہور کا ہے جب بارش کے بعد ایک بزرگ موٹر سائیکل سوار نے سڑک پر جمع پانی سے تنگ آ کر حکمرانوں کو برا بھلا کہا۔ کسی شہری نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی۔ عوام نے نہ صرف اس میں موجود سچائی کو محسوس کیا بلکہ اس کی بے بسی کو محسوس کیا۔ مگر جواباً حکمرانوں نے اسے گرفتار کیا اور اس سے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کروا دیا گیا جس میں وہ حکومتی کارکردگی کو سراہتا نظر آیا۔ یوں ایک بے ساختہ شکایت کو جبر سے دبانے کی کوشش نے حکومت کے خلاف مزید نفرت پیدا کر دی۔ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کا یہ عمل نہ صرف قابلِ مذمت تھا بلکہ سیاسی ناعاقبت اندیشی کی بدترین مثال بن گیا۔ اس کے برعکس دوسرا واقعہ بھی لاہور ہی کا ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل جو مبینہ طور پر ذہنی دباؤ اور ذاتی مسائل کا شکار تھا، نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو سوشل میڈیا پر ویڈیو میں گالیاں دیں۔ ویڈیو وائرل ہوئی۔ مگر ڈاکٹر عثمان نے دانائی سے کام لیا اس کانسٹیبل کو نہ صرف دفتر بلا کر گلے لگایا بلکہ اس کے علاج کا بندوبست بھی کیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس کا رویہ ناقابلِ قبول تھا لیکن انہوں نے اسے ایک انسانی مسئلہ سمجھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ واقعہ مثبت رخ اختیار کر گیا۔ پورے ملک میں آئی جی پنجاب کی تعریف ہونے لگی عوام نے ان کے رویے سے انسانیت، شفقت اور قیادت دیکھی۔ ان دونوں واقعات کا موازنہ ہمیں ایک بنیادی سبق دیتا ہے کہ جبر سے صرف وقتی خاموشی حاصل کی جا سکتی ہے، دلوں کی حمایت نہیں۔ حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انسانوں کو ڈنڈے سے ہانکنے کی پالیسی کبھی دیرپا فائدہ نہیں دیتی۔ انسان، جانور نہیں کہ مار سے قابو آ جائے۔ انسان عقل، شعور اور دل رکھتا ہے۔ اسے عزت، بات چیت اور محبت سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ جو حکمران اپنی قوم کی تربیت، تعلیم، شعور اور بہتری پر توجہ دیتے ہیں، وہی تاریخ میں کامیاب رہتے ہیں۔ باقی محض ڈنڈا بردار بادشاہ ہوتے ہیں، جو جاتے وقت بھی عوام کی بد دعاؤں کا شکار ہو کر رخصت ہوتے ہیں۔ اگر ریاست چاہتی ہے کہ عوام کا رویہ مہذب ہو، اگر وہ چاہتی ہے کہ لوگ قانون کی عزت کریں، تو پھر اسے سب سے پہلے خود قانون پر عمل کرنا ہو گا۔ عوام کو تربیت دینی ہو گی، نصاب میں برداشت، اظہارِ رائے کی آزادی، اور اختلافِ رائے کا احترام شامل کرنا ہو گا۔ میڈیا کو آزاد کرنا ہو گا تاکہ سچ بولنے والے ڈرنے کے بجائے فخر سے سامنے آ سکیں۔ عدالتوں کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ ہر مظلوم کو انصاف ملے اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کو خود کو عوام کا خادم سمجھنا ہو گا، مالک نہیں۔ یہ جمہوریت کی روح ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو ایک بکھرتی ہوئی قوم کو جوڑ سکتا ہے۔ ورنہ یاد رکھئے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ سے صرف مشینیں بہتر ہوتی ہیں انسان نہیں۔۔۔
واپس کریں