دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"زمین کے نیچے ہائیڈروجن کا خزانہ، دنیا کیلئے ایک نئی امید"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
جب سے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے انسان نے توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے میں اپنا تن من اور دھن لگا دیا ہے ہم جیسے کم علم لوگ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس سلسلہ میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور توانائی کے کتنے آسان اور مختلف ذرائع وجود میں آ چکے ہیں۔ جن میں روایتی پیٹرولیم مصنوعات ، ہائیڈرو پاور ، ایٹمی توانائی ، شمسی توانائی، ونڈ ٹربائن سے حاصل کردہ توانائی۔ پُلوں اور سڑکوں کے نیچے مختلف اوزار لگا کر حرکی توانائی سمیت اور بہت سے ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اب پیٹرولیم مصنوعات ، ایٹمی توانائی اور ہائیڈرو پاور جیسے روایتی ذرائع سے اب توانائی کے دوسرے جدید ذرائع پر منتقل ہو رہے ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ ترقی کی اس صدی میں بھی ماہانہ کھربوں روپے کا بجٹ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ کرتے ہیں جو ہمارے پاس موجود ہی نہیں۔ لیکن دنیا اس سلسلہ میں مزید محفوظ اور سستے ذرائع ڈھونڈنے کے چکر میں ہے اور اسکی تحقیق پر اربوں ڈالر کا بجٹ خرچ کر رہی ہے۔ زمین کے اندر مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زمین کے اندر وہ خزانے بھی چھپے ہیں جو نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی بدل سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے اور وہ ہے زمین کے نیچے لاکھوں ٹن قدرتی ہائیڈروجن کی موجودگی۔ ہائیڈروجن ایک ایسی گیس ہے جو اگر صاف طریقہ سے حاصل کی جائے تو یہ ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر توانائی مہیا کر سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت زیادہ تر مہنگے اور آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن جیسے تیل، گیس اور کوئلہ پر انحصار کیا جاتا ہے لیکن اگر زمین کے اندر موجود قدرتی ہائیڈروجن نکالنے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو یہ توانائی کا ایک نیا اور ماحول دوست ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق زمین کی گہرائی میں ایسی چٹانیں موجود ہیں جو خاص کیمیائی عمل کے ذریعے ہائیڈروجن پیدا کرتی ہیں۔ ان چٹانوں میں نمی اور گرمی کے باعث گیس بن کر جمع ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں خاص طور پر افریقہ، روس اور امریکہ میں ایسے ذخائر ہو سکتے ہیں جن کی مقدار لاکھوں یا کروڑوں ٹن تک ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ہائیڈروجن استعمال کے قابل ہے۔ ماہرین اس پر کام کر رہے ہیں کہ اسے کس طرح نکالا جائے تاکہ یہ سستا اور محفوظ ہو۔ اگر یہ ممکن ہو گیا تو سمجھیں کہ ہمیں ایک ایسا خزانہ مل جائے گا جو تیل اور گیس سے کہیں بہتر ہو گا۔ یورپ اور امریکہ میں کئی کمپنیاں اس طرف تیزی سے قدم بڑھا رہی ہیں اور اسے ایک نئی "توانائی کی دوڑ" کہا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے بھی یہ ایک موقع ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے پہاڑی علاقوں یا چٹانی خطوں میں تحقیق کریں تو ہو سکتا ہے ہمیں بھی قدرت کا کوئی چھپا ہوا خزانہ مل جائے۔ اور اگر یہ کام پنجاب پولیس اور خاص کر تھانہ کالاباغ اور تھانہ پیر پہائی کے ذمہ لگا دیا جائے تو بہت جلد یہ ہائیڈروجن نکل سکتی ہے کیونکہ وہ اس سے قبل اپنے تھانوں کی پہاڑی حدود سے محکمہ معدنیات کے ساتھ مل کر روزانہ لاکھوں روپے کا سونا ایک سال سے نکال رہے ہیں۔ اچھا چلو چھوڑیں یہ تحقیقات حکومت جس کو بھی دے ہمیں اس سے کیا بات ہو رہی تھی ہائڈروجن کی تو اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔ یہ دریافت سائنس کی دنیا میں ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے اور امید ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا اس سے ایک صاف ، سستے اور پائیدار توانائی کے ذرائع سے اس سے فائدہ اٹھائے گی شاید کچھ صدیوں بعد اس تحقیق کا ہماری معیشت پر بھی مثبت اثر پڑ جائے اگر ہم گذشتہ ستر سال والے مشکل موڑ کو کراس کر گئے تو۔۔۔
ہم نہ ہوں گے تو کسی اور کے چرچے ہوں گے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
واپس کریں