دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کھسرا ڈانس ایک سماجی برائی
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
اگر کبھی اکیلے بیٹھ کر آپ آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل کے جاہلیت سے لتھڑے دور میں جھانکنا چاہیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کیسا دورِ جاہلیت تھا۔ وہ دور بالکل ایسے ہی تھا جس طرح کا وقت ہم پر گزر رہا ہے۔ اس وقت بھی بُرے اور بدمعاش شخص کی عزت کی جاتی اور شریف انسان کا مذاق اڑایا جاتا اور آج بھی وہی کام جاری ہے۔ اس وقت بھی ایماندار شخص کو اتنا تنگ کیا جاتا کہ وہ مجبور ہو کر اپنی ایمانداری سے توبہ کر لے اور معاشرہ میں موجود کرپٹ اکثریت کے راستہ پر آ جائے اور آج بھی ویسا ہی ہو رہا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں تو عورتوں کا ناچ گانا عام تھا لیکن اب تو ہم اس سے بھی بہت آگے چلے گئے ہیں اور نئی نسل میں کھسرے اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ ان کی وجہ سے لوگ اپنی بیویوں اور والدین کو بھی بھول چکے ہیں اور کتنی شرمندگی اور بے غیرتی کی بات ہے کہ کھسروں کے اکثر شوقین حضرات کی اپنی بیویوں اور بہنوں کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ میرے سرتاج اور سُورمے بھائی کے کسی معروف کھسرے سے دو نمبر تعلقات ہیں۔ آجکل تو حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کھسروں کے پروگرام کے بغیر کوئی بھی شادی ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ کھسروں کے پروگراموں میں سر عام نہ صرف شراب نوشی کی جاتی ہے بلکہ ایک طرف تو حرام کی کمائی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے دوسری طرف کرنسی کو کھسروں کے اوپر پھینک کر کرنسی نوٹ پر چھاپی گئی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کو سرعام پاؤں تلے روندا جاتا ہے ۔

اگر معاشرہ میں کوئی عام شخص قائد اعظم کے خلاف چھوٹی سی بات بھی کرے تو اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہو گا لیکن یہ بااثر کھسرے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر والے نوٹوں کو جوتے کی نوک پر مارتے ہیں لیکن ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا میں حیران ہوں کہ پولیس کرنسی کو نقصان پہنچانے کے دفعات لگا کر ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کیوں نہیں کرتی۔ لیکن سننے میں آیا ہے کہ ہمارے کئی منصف بھی اسی لت کے عادی ہیں اور مبینہ طور پر کھسروں کے پروگرام کرانے میں انتظامیہ پر کئی مرتبہ اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق ایک علاقہ کا ایک معروف کھسرا اس منصف کو ہر ہفتہ شام کے بعد ملنے بھی جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے انصاف کرنے والوں کا نمبر 130 واں ہے جبکہ ملکی سطح پر کرپشن میں ان منصفوں کا پہلا نمبر ہے۔

اسی طرح بے ایمانی میں پوری دنیا میں ہمارا 140 واں نمبر ہے لیکن اس کے باوجود جس طرح نئے تعینات ہونے والے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی مطیع اللہ خان نوانی کے خصوصی احکامات پر گذشتہ کئی دنوں سے کمرمشانی اور گردونواح میں کھسروں کے پروگراموں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور پولیس مختلف طاقتور لوگوں کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس گناہ کے سامنے کھڑی ہو گئی ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ اس سے بہت مثبت اثرات پڑیں گے۔ اس موقع پر ایس ایچ او کمرمشانی محسن رضا کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی جو اپنے اوپر بے انتہا سیاسی دباؤ کے باوجود اس برائی ہے خلاف لڑ رہے ہیں۔ تحصیل عیسیٰ خیل کا میڈیا اس سلسلہ میں ڈی پی او میانوالی اور ایس ایچ او کمرمشانی کو یقین دلاتا ہے کہ برائی کے اس کھیل میں جتنی بھی طاقتور شخصیت ملوث ہو پورا میڈیا اس برائی کو روکنے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔
واپس کریں