دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"میانوالی کے ایک معروف ہوٹل میں کاکروچ کا معاملہ"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق گذشتہ دنوں میانوالی شہر میں واقع ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے دوران مبینہ طور پر ایک گاہک کی پلیٹ میں ایک مردہ کاکروچ نظر آیا جس کی پہلے تو اس گاہک نے اپنے موبائل فون میں تصویر بنائی اور پھر پنجاب فوڈ اتھارٹی میانوالی کے عملہ کو اطلاع دی جو موقع پر پہنچ گئے اور انھوں نے ضروری کاروائی کرتے ہوئے ہوٹل کو فوری طور پر سیل کر دیا۔ سب سے پہلے اس بات کا علم ہمیں ہونا چاہئے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے کیا فرائض ہیں اور اس کے اختیارات کیا ہیں ۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام حکومت پنجاب کی جانب سے پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011 کے ذریعے عمل میں لایا گیا جس کا مقصد پنجاب کی عوام کو بلا تفریق صاف ستھری خوراک کی فراہمی ہے جو کہ لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سیکشن 22 میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ پنجاب بھر میں ناقص، مضر صحت یا آلودہ کھانے کی اشیاء فروخت کرنا ممنوع ہو گا۔ اسی طرح سیکشن 23 کے مطابق گندے، غیر محفوظ یا غیر صحت بخش حالات میں کھانے کی تیاری، اسٹوریج یا پیشکش بھی ممنوع قرار دی گئی ہے 2018 میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مختلف قوانین میں ترامیم کر کے اسے مزید سخت کیا گیا ہے تاکہ مضر صحت اشیاء کی فروخت کا خاتمہ کر کے لوگوں کی جان سے کھیلنے والے عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس ترمیم میں خاص طور پر حفظانِ صحت کے اصولوں، صفائی ستھرائی کے معیار، اور پیسٹ (کیڑے وغیرہ) کنٹرول کی سخت شرائط شامل کی گئی ہیں کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے اکثر ہوٹلوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات سے کیڑے وغیرہ نکل آتے جو کہ یہ مصنوعات بنانے والوں کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے مضر صحت ہو جاتی تھیں اور اس خطرناک فعل کو روکنے کیلئے یہ شق خاص طور پر اس ایکٹ میں حکومت کی طرف سے ڈالی گئی اور اس کے تحت ضلعی فوڈ اتھارٹی کے فوڈ سیفٹی آفیسر کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ ایسے کیسز میں موقع پر جا کر کیس کی سنگینی کے لحاظ سے نہ صرف 5 ہزار روپے سے 5 لاکھ روپے روپے تک فوری جرمانہ عائد کر دے بلکہ ہوٹل یا دوکان کو فوری طور پر سیل بھی کر دے۔ اس کیس میں بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی میانوالی کے ذرائع کے مطابق مجوزہ قانون کے تحت میرٹ پر کاروائی کی گئی۔ اب آتے ہیں سوسائٹی کے اخلاقیات کے معیار کی جس کے تحت ہم ہر کام میں دوہرا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف ہمارا انتظامیہ سے روزانہ یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے معاشرہ میں کسی بھی جرم کرنے والے کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائے لیکن دوسری طرف اگر کاروائی ہمارے اپنے خلاف یا ہمارے کسی دوست یا عزیز کے خلاف ہو تو ہم جرم کرنے والے کے حق میں بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق اس کو مظلوم ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ایک کمرشل ہوٹل جو لاکھوں روپے ماہانہ کماتا ہے اس کی شہرت بھی اچھی ہو اور کبھی بھی اس کے کھانے میں کاکروچ نہ نکلا ہو تو ایک مرتبہ اگر ایسا ہو جائے کہ کھانے کے دوران اچانک پلیٹ سے کاکروچ نکل آئے تو کونسا قانون یا اخلاقیات کی کتاب اجازت دیتی ہے کہ اس پر قانون لاگو نہیں ہو گا اور اس ہوٹل کو اس وجہ سے سزا نہ دی جائے کہ اس کے کھانے سے اس سے پہلے کوئی کیڑا برآمد نہیں ہوا۔ یعنی اگر پہلی مرتبہ کسی نے کسی کو فائر مارا ہو یا پھر قتل کر دیا ہو تو اس کو معاف کر دیا جائے کیونکہ اس سلسلہ میں ملزم کی شہرت بہت اچھی تھی؟ کیا ایسا ممکن ہے اور اس سے سوسائٹی پر مثبت اثرات پڑیں گے؟ افسوس تو اسی بات کا ہے کہ ہم بحثیت معاشرہ شدید دوغلے پن کا شکار ہیں زبانی کلامی بات اور کرتے ہیں اور عمل کچھ اور کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تنزلی کی سب سے بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے مفاد یا تعلقات بچانے کیلئے اپنے ضمیر کو داؤ پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ہم ملزم کو سزا دینے کے مطالبہ کی بجائے جرم کرنے والے کے وکیل بن جاتے ہیں اور اس کیس میں تو ایسے ایسے پڑھے لکھے اور روشن خیال لوگوں کی پوسٹیں نظروں سے گزری ہیں جو زبانی طور پر معاشرہ کو سدھارنے کیلئے نہ صرف ہابر ممالک کی مثالیں دیتے ہیں بلکہ نام نہاد فلاسفر بنے ہوئے ہیں۔ کبھی لکھتے ہیں ہم ہوٹل والوں کے ساتھ ہیں کبھی لکھتے ہیں یہ پلانٹٹڈ گیم ہو گی۔ کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ مذکورہ ہوٹل نہ کوئی پہلا یا آخری ہوٹل ہے جس کے کھانے سے کیڑے نکلے ہوں اور نہ ہی کوئی ایسا جرم ہے جس کی سزا موت ہو بلکہ ہوٹل مالکان میانوالی ضلع کی اچھی بھلی تاجر پارٹی ہیں اور کچھ دن بعد قانون کے مطابق ہوٹل دوبارہ کھل جائے گا لیکن ہمارے ضلع کی نام نہاد شخصیات کے چہروں سے جو پردہ چاک ہوا ہے شاید لوگ دوبارہ اس پردہ کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔ ہم ایک طرف تو ایمانداری کی مثالیں یورپ اور امریکہ کی دیتے ہیں لیکن دوسری طرف انتہا کے منافق ہیں اور ایسے چھوٹے چھوٹے کیسز ہماری ایمانداری اور اخلاقیات کا بھانڈہ پھوڑ دیتے ہیں۔ عام آدمی کی تو کوئی بات نہیں لیکن یہاں تو بڑے بڑے صحافی ، وکلاء اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ وکیل بن کر یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ پلانٹڈ گیم تھی جیسا کہ گذشتہ دنوں رحیم پیٹرولیم والوں کو ایک گاہک نے کم پیٹرول ڈالنے پر رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اور اس وقت بھی بڑے بڑے چٹ پوشوں کی طرف سے یہی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ پلانٹڈ گیم ہے۔ اب اس کیس میں ہوٹل مالکان کو چاہیے کہ وہ متعلقہ گاہک کے خلاف تھانہ میں درخواست دیں تاکہ پولیس تفتیش کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے گاہک کے خلاف سخت کاروائی کرے۔ اور اگر ایسا ہوا تو اس سے ہوٹل کی ساکھ بھی بچ جائے گی۔ سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈہ کی بجائے اس کیس میں پولیس کو ملوث کیا جائے۔ تاکہ حقائق سامنے آ سکیں ۔ ہوٹل مالکان کے ساتھ میرے بہت قریبی تعلقات ہیں لیکن میں یہاں اُن سے دلی طور پر معذرت کروں گا کہ میرے اس مضمون سے شاید ان کی دل آزاری ہو گی کیونکہ ہم بحثیت قوم ابھی اخلاقیات کے اس معیار پر نہیں پہنچ سکے جہاں بلا تفریق حق کو حق کہہ سکیں یہ صحافی کا فرض ہے کہ وہ اپنی ہستی کے مطابق اپنے قلم کی لاج رکھے ۔۔
واپس کریں