دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسلحہ کا عالمی بیوپاری اور نوبل انعام کی خواہش
No image امریکہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کنندہ اور تقریباً 96 ممالک کو اسلحہ فراہم کرتا ہے جبکہ امریکہ کو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور یہودی چلاتے ہیں۔نوبل پرائز کے امیدوار ٹرمپ صاحب کی اشٹبلشمنٹ کا پچھلا تمام تر ٹریک ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے70 سے 100 ممالک میں براہ راست یا بالواسطہ فوجی مداخلت کی گئی اور اس کا آغازامریکی میکسیکو جنگ (1846-1848)سے ہوا تھا جبکہ جاپان، کوریا، ویتنام، عراق، افغانستان، شام، لیبیا، یمن اور اب ایران پر امریکی ایٹمی،میزائل اور ڈرون حملے کسے یاد نہیں۔
امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی جھلک ملاحظہ فرمائیں،آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ اپنے آپ کو نوبل انعام کا حق دار ٹہرانے والے ٹرمپ صاحب خود کتنے آلودہ پانی میں کھڑے ہیں۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 2023 میں دنیا بھر میں اسلحہ بنانے والی 100 بڑی کمپنیوں میں سے 41 کا تعلق امریکہ سے تھا، جنہوں نے مجموعی طور پر 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے۔ یہ کمپنیاں مختلف قسم کے اسلحہ جات، جیسے جنگی جہاز، میزائل، ٹینک، اور ڈرونز تیار کرتی ہیں۔
بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، فائر آرمز اینڈ ایکسپلوزوز کے مطابق، 2020 میں امریکہ میں تقریباً 13,000 سے زائد رجسٹرڈ فائرآرمز مینوفیکچررز تھے جو چھوٹے ہتھیار (جیسے پستول، رائفلز) بناتے ہیں۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت میں بڑی کمپنیوں کے علاوہ چھوٹی فیکٹریاں بھی شامل ہیں جو مقامی طور پر ہتھیار تیار کرتی ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔امریکہ میں گھریلو سطح پر بھی ہتھیار تیار کیئے جاتے ہیں جو روایتی فیکٹریوں سے الگ ہیں۔
امریکہ میں ایٹمی یا جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مخصوص فیکٹریوں کی تعداد اور مقامات کے بارے میں تاریخی اور دستیاب معلومات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلحہ کا عالمی بیوپاری کون ہے۔ملاحظہ فرمائیں
مین ہٹن پروجیکٹ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، امریکہ نے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے مین ہٹن پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت کئی اہم تنصیبات قائم کی گئیں، جیسے:لاس الاموس نیشنل لیبارٹری (نیو میکسیکو): یہ جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن اور تحقیق کا بنیادی مرکز تھا اور آج بھی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری ہے۔
اوک رج (ٹینیسی) یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہوتا تھا اورہینفورڈ سائٹ (واشنگٹن) پلوٹونیم کی تیاری کے لیے بنائی گئی تھی۔
آج کل، جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور تحقیق کے لیے چند اہم سرکاری تنصیبات ہیں، جن کا انتظام امریکی محکمہ توانائی کے تحت ہوتا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
لاس الاموس نیشنل لیبارٹری اور لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری (کیلیفورنیا) یہ دونوں جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن، ترقی اور جانچ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔پینٹیکس پلانٹ (ٹیکساس): یہ جوہری ہتھیاروں کی اسمبلی اور ڈسمبلی کا بنیادی مرکز ہے۔سوانا ریور سائٹ (ساؤتھ کیرولائنا) پلوٹونیم اور ٹریٹیم کی تیاری سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ Y-12 نیشنل سیکیورٹی کمپلیکس (ٹینیسی) یورینیم کی افزودگی اور جوہری ہتھیاروں کے پرزوں کی تیاری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، امریکہ میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق سرگرمیوں کے لیے کم از کم 5 سے 10 بڑی تنصیبات ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس دھندے میں ملوث ہیں۔ ان کے علاوہ، کئی چھوٹی لیبارٹریز بھی ہو سکتی ہیں جو جوہری پروگرام کی معاونت کرتی ہیں۔
مندرجہ بالا مختصر صورت حال ملاحظہ کرنے کے بعد اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسلحہ کا عالمی بیوپاری امریکہ، دنیا میں امن کیوں کر ممکن کو ہونے دے لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ اس سب کے باوجود موجودہ امریکی صدر عالمی نوبل پرائز کے حصول کی خواہش بھی رکھتا ہے یہی نہیں بلکہ اگر کوئی اور ملک اپنے دفاع یا طوانائی کی ضرورت کے لیئے ایٹمی ٹیکنالوجی کی حصول کی کوشش بھی کرے تو یہ صدر اسے دنیا کا دشمن نمبر ایک ٹہراتا ہے اور اس کے باوجود ہم اس صدر یا اس سے پہلے والے امریکی صدور کو اپنا ہمدرد مانتے رہے ہیں۔ گندہ ہے پر دھندہ ہے۔
واپس کریں