دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پشتون وطن کو برباد کیا گیا۔نعمت وزیر
No image خلیجی ممالک کے پشتونوں میں جہاں ہزار خامیاں ہوں گی، وہاں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ غم کے موقع پر ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ یقین مانیے، اگر آپ متحدہ عرب امارات میں کسی پشتون کی وفات کے بعد اُس کے جنازے، کفن و دفن اور دیگر رسومات میں لوگوں کی شرکت دیکھیں گے تو اپنی پہچان پر فخر محسوس کریں گے۔ چند ماہ قبل میں ایک پشتون کے جنازے میں شریک ہوا۔ لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پولیس کی بڑی نفری ٹریفک کو سنبھالنے کے لئے پہنچ گئی تھی۔ اُسی دن مردہ خانے میں ایک اور لاش بھی لائی گئی تھی۔ اُس کے ساتھ ایمبولینس میں صرف ایک خاتون تھیں۔ پتہ نہیں کس پیارے کا جنازہ تھا جس کے ساتھ وہ اکیلی آئی تھیں۔
اس کے علاوہ وطن میں بھی اگر کسی قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجائے تو یہاں کے لوگ اُسی طرح فاتحہ خوانی کے لئے آتے ہیں۔ ظاہر ہے، پھر گفتگو بھی وطن کے حالات و واقعات پر ہی ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ لوگ جتنے مخلص ہوتے ہیں، دوسری طرف وطن کے حالات سے ناواقفیت اور گھریلو جھگڑوں کے واقعات سُن کر انسان افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ معاشرے کو مجموعی طور پر اور خاص طور پر سیاسی طور پر ایسے اندھیرے میں رکھا گیا ہے کہ ہر ناخوشگوار واقعے کو خدا کی ناراضگی یا بُرے اعمال کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔
آج ایسی ہی ایک فاتحہ خوانی کے دوران ایک معروف تبلیغی بھائی پشتون وطن میں بدامنی، دہشت گردی، سیلاب اور دیگر آفات کو خدا کی ناراضگی سے جوڑ رہے تھے۔ بھائی صاحب فرما رہے تھے کہ آج سے بیس سال قبل تبلیغی جماعت کے امیر عبدالوہاب نے خصوصاً پشتونخوا کے عوام کو استغفار کی کثرت سے ورد کرنے کی تلقین کی تھی۔ بقول اُن کے، حاجی صاحب اتنے بزرگ تھے کہ وہ آنے والے حالات کو پہلے سے جان لیتے تھے۔ مجمع میں سب لوگ اثبات میں سر ہلاتے رہے اور میں اندر ہی اندر خون کے آنسو روتا رہا۔
کتنی منظم سازش کے ذریعے سالوں سے مسجد اور مولوی، تبلیغ کے ذریعے عوام کو سیاست سے دور رکھا گیا۔ پھر اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اُن کے اعمال کا نتیجہ اور خدا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ کہنے کو بہت کچھ تھا، سوچا کہ پشتون وطن پر منظم دہشت گردی، نسل کُشی اور اُن کے کرداروں پر بات کروں؛ ریاستی گٹھ جوڑ اور ملوث ہونے پر بات کروں۔ اُنہیں بتاؤں کہ لاہور میں کرکٹ گراؤنڈ کو خشک کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر تو آسکتے ہیں، لیکن پشتونخوا کی ہزاروں عورتوں اور بچوں کو بچانے یا امداد دینے کے لئے نہیں آسکتے۔ پشتونخوا میں ہیلی کاپٹر اور جنگی جہاز صرف بارود برسانے کے لئے آتے ہیں۔
پھر سوچا کہ جو شخص اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، اُس کے سامنے سب ہورہا ہے، لیکن پھر بھی عبدالوہاب نے اُسے اندھا بنا رکھا ہے، وہ بھلا میری بات کیوں سُنے گا؟ پشتون وطن کو جس قدر تبلیغ کے ذریعے برباد کیا گیا، جتنا اُنہیں اپنے حقوق سے محروم اور غیر سیاسی رکھا گیا، شاید دنیا کی کوئی فلم یا ڈرامہ اتنا مؤثر ثابت نہ ہوتا۔۔
واپس کریں