دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لائی لگ لوگ ۔تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
''لائی لگ'' پنجابی زبان کا ایک عام مگر بامعنی لفظ ہے جو اب اردو میں بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔ آج یہ محض ایک لسانی اظہار نہیں، بلکہ ایک مکمل سماجی رویہ کی علامت بن چکا ہے۔ ''لائی لگ'' اُن افراد کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی تحقیق، فہم یا ذاتی غور و فکر کے دوسروں کے عمل یا باتوں کی اندھی پیروی کرتے ہیں۔ یہ روش جسے عرف عام میں ''بھیڑ چال'' کہا جاتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا ایک واضح مظہر بنتی جا رہی ہے۔
لائی لگ بننے کے لیے کوئی خاص شرط نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ''لائی لگ'' بننے کے لیے نہ تو تعلیم کی کمی شرط ہے، نہ شہریت، عمر، حیثیت، یا مذہبی رجحان کوئی رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، باعزت پیشے سے وابستہ فرد بھی اگر محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر لے اور دوسروں کی پیروی شروع کر دے تو وہ بھی اسی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی عقل استعمال نہیں کرنی، اور ہر خبر، ویڈیو یا پیغام کو بلا تحقیق دوسروں تک پہنچانا ہے، تو مبارک ہو آپ بھی لائی لگ لوگوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ہر فرد کو رائے کے اظہار کی مکمل آزادی دی ہے۔ اب کسی کو اخبار یا ٹی وی چینل کی محتاجی نہیں رہی۔ فیس بک، ایکس (ٹوئٹر)، یوٹیوب، انسٹاگرام ایسے پلیٹ فارمز نے ہر شخص کو صحافی، فنکار، تجزیہ کار، یا مقرر بنا دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، جہاں یہ آزادی ایک نعمت تھی، وہیں یہ اکثر اوقات ''لائی لگ رویے'' کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکی ہے۔ آئے روز جھوٹی، من گھڑت، یا سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی خبریں وائرل ہوتی ہیں، جنہیں لاکھوں لوگ تحقیق کے بغیر شیئر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں دو حالیہ مثالیں دینا چاہوں گا کہ کیسے لائی لگ لوگ جھوٹ کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
جج صاحب کی وائرل ویڈیو:
چند روز قبل ساہیوال کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد اصغر ابراہیم سے منسوب ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ویڈیو کا عنوان کچھ یوں تھا:
''حکومتی دباؤ کی وجہ سے جج صاحب نے عدالت میں استعفیٰ دے دیا، کرسی کو سیلوٹ کیا، اور چلے گئے۔ یہ غیرت کا عملی مظاہرہ ہے!''
اس ویڈیو کو حزب اختلاف کی اک مخصوص سیاسی جماعت سے وابسطہ اکاؤنٹس سے بھرپور طریقے سے شیئر کیا گیا، اور لائی لگ لوگوں نے اسے سچ مان کر لاکھوں بار پھیلایا۔ جبکہ، اصل حقیقت یہ تھی کہ جج صاحب کا یہ عدالت میں آخری دن تھا، کیونکہ وہ ریٹائر ہو رہے تھے، نہ کہ کسی دباؤ یا احتجاج کی بنا پر مستعفی ہو رہے تھے۔ ریٹائرمنٹ کی اطلاع کئی ہفتے قبل ہی عدالتی حلقوں اور میڈیا میں گردش کر رہی تھی۔
. وکلاء تنظیم کی پریس ریلیز:
ایک اور واقعہ میں، ایک بڑی وکلاء تنظیم کے صدر نے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے ایک ترمیمی بل پر سخت ردعمل ظاہر کیا جس میں تحصیل، ضلع اور ہائیکورٹ بار کے عہدوں کی مدت ایک سال سے بڑھا کر دو سال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ صدر صاحب نے پریس ریلیز جاری کی اور حکومت وقت پر تنقید کے نشتر برسا دیے، حالانکہ یہ ترمیمی بل اُسی اپوزیشن جماعت کے ایک رکن اسمبلی کی جانب سے بطور پرائیویٹ ممبر پیش کیا گیا تھا، جس جماعت کی حمایت سے موصوف بار انتخابات میں جیت کر صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے تھے — یعنی تنقید کا رخ ہی غلط تھا۔ یہ بھی ایک واضح مثال ہے کہ لائی لگ رویہ صرف عوام تک محدود نہیں، قیادت کے عہدوں تک سرایت کر چکا ہے۔
یاد رہے لائی لگ لوگوں کی داستانیں قلمبند کئے گئے دو مخصوص واقعات تک مخصوص نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا پر طرفین کی جانب سے من گھڑت خبروں کی اشاعت ہوتی رہتی ہے۔ نہ رکنے والا سلسلہ نجانے کب ختم ہوگا۔
میرے استاد محترم ہمیشہ فرمایا کرتے ہیں: کہ ''دستاویز کو وہاں سے پڑھو جہاں کچھ نہیں لکھا، اور وہاں تک پڑھو جہاں کچھ نہیں لکھا۔'' یعنی پہلی سطر سے آخری سطر تک موجود ہر لفظ کو مکمل پڑھ کر، سیاق و سباق سمیت سمجھو، پھر رائے قائم کرو۔ اسی حقیقت کو قرآنِ پاک نے نہایت جامع انداز میں یوں بیان فرمایا: ''اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور بعد میں تمہیں اپنے کیے پر پشیمانی اٹھانی پڑے۔'' (سورۃ الحجرات)
سوشل میڈیا کے اس ہنگامہ خیز دور میں جہاں ہر ہاتھ میں کیمرہ اور ہر زبان پر اپنی ''خبر'' ہے، وہاں سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا صرف تحقیق اور فہم سے ممکن ہے۔ صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں کسی خبر کی حقیقت جانچنے میں شرط صرف اتنی ہے کہ ہم ''لائی لگ'' بننے سے انکار کر دیں اور اپنی عقل استعمال کریں۔ تحقیق کریں، سمجھیں، سوچیں۔۔ پھر بولیں، لکھیں یا شیئر کریں۔
واپس کریں