دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کلاؤڈ برسٹ اور میانوالی : جب آسمان برسنے پر آ جائے‎
ساجد الرحمن
ساجد الرحمن
کبھی کبھی فضا پرسکون ہوتی ہے، بادل دور آسمان پر خاموشی سے تیر رہے ہوتے ہیں، اور گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ مگر لمحہ بھر میں منظر بدل جاتا ہے۔ کالے بادل گرجتے ہیں، بجلی چمکتی ہے، اور پھر یوں لگتا ہے جیسے آسمان نے اپنے سارے پانی کے دروازے کھول دیے ہوں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کلاؤڈ برسٹ کی شکل میں ایک خوفناک قدرتی آفت جنم لیتی ہے۔ میانوالی کے شمال مغربی حصے میں اس آفت کا خطرہ خاص طور پر زیادہ ہے۔ یہ خطہ پہاڑی اور نیم پہاڑی جغرافیے کا حامل ہے، جہاں پانی کے بہاؤ کے راستے تنگ اور گہرے نالوں کی صورت میں موجود ہیں۔
کلاؤڈ برسٹ کے بعد یہی نالے لمحوں میں طغیانی اختیار کر لیتے ہیں۔ عیسیٰ خیل تحصیل کے قریبی علاقے، جن میں کمر مشانی، چاپری، گلاخیل، ملاخیل، مکڑوال، ونجاری اور اس سے جڑے دیہات شامل ہیں، براہِ راست اس خطرے کی زد میں آتے ہیں۔ کوہِ سلیمان کے دامن سے اچانک برسنے والی بارش کا پانی ندی نالوں میں بہہ کر بستیوں اور کھیتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ نالہ بڑوچ، نالہ اڈوالا اور نالہ کرم جیسے قدرتی آبی راستے کلاؤڈ برسٹ کے بعد اپنے حدود سے باہر نکل آتے ہیں۔
یہ طوفانی ریلے پلوں، سڑکوں، فصلوں اور گھروں کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان پہاڑی بستیوں میں جہاں بنیادی ڈھانچے کی سہولیات پہلے ہی محدود ہیں، کلاؤڈ برسٹ کے وقت بروقت انخلا، ہنگامی طبی امداد، اور رابطہ سڑکوں کو کھلا رکھنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مویشیوں کی ہلاکت، فصلوں کی تباہی، بجلی اور مواصلاتی نظام کی بندش عام مسئلہ بن جاتے ہیں۔
اگرچہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے کسی حد تک تیار رہتے ہیں، لیکن پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کے اثرات کم کرنے کے لیے مقامی کمیونٹی کی شمولیت، قبل از وقت وارننگ سسٹم، نالوں کی صفائی اور پلوں کی مضبوطی جیسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن بروقت تیاری، منصوبہ بندی اور اجتماعی تعاون سے ان کے نقصانات ضرور کم کیے جا سکتے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ ایک وارننگ ہے کہ ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے اور اپنی بستیوں کو محفوظ بنانے کے لیے آج ہی سے اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ جب بادل برسنے پر آتے ہیں تو مہلت نہیں دیتے۔
واپس کریں