نجیب الغفور خان
15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی، آزاد جموں و کشمیر،پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی جانب سے ”یوم سیاہ“ کے طور پر منایا جاتاہے،تاکہ عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ بھارت نے کشمیریوں کا پیدائشی حق،حق خود ارادیت مسلسل دبارکھا ہے اور وہ یہ حق مانگے کی پاداش میں کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے،اس دن کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں،جبکہ جموں و کشمیر لبریشن سیل کے سوشل میڈیا یونٹ نے بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کے لئے خصوصی سوشل میڈیاکیمپین بھی شروع کر رکھی ہے۔یوم سیاہ کے حوالے سے نہ صرف پاکستان، آزاد جموں و کشمیر بلکہ دنیا بھر میں سرکاری، غیر سرکاری، نجی تنظیموں، طلباء، وکلاء، صحافتی برادری اور سول سوسائٹی سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد مقبوضہ وادی میں معصوم اور نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی مذمت اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مختلف تقریبات، سیمینارز اور ریلیوں کا انتظام کرتے ہیں تاکہ عالمی برادری کو مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جاسکے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے قانون میں تبدیلی کی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغازکیا مگر کشمیریوں نے مودی سرکار کے اس ظالمانہ اور غیر قانونی اقدام کو ماننے سے انکار کر تے ہوئے دنیا بھر میں اپنابھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا، جس میں کئی کشمیریوں نے آزادی کی اس جدوجہد میں اپنی جان کے نظرانے بھی پیش کئے۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے دوران جنوری 1989 سے اب تک 96ہزار 4سو 61کشمیریوں کو شہید کیا جن میں سے 7ہزار 3سو 97کو دوران حراست حراست اورجعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔بھارت عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں تشدد کو بطور ریاستی پالیسی مسلسل استعمال کر رہا ہے۔جنوری 2001 سے اب تک فوجیوں اورپیرا ملٹری اہلکاروں کے ہاتھوں 690 خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اکثر کشمیری خواتین نفسیاتی مسائل اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے 1989 سے اب تک محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 1لاکھ 76ہزار5سوسے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد کو مختلف تفتیشی مراکز، تھانوں اور جیلوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ قابض بھارتی فورسز اہلکاروں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بیگناہ لوگوں پر تشدد اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوج، پیرا ملٹری، سپیشل آپریشن گروپ، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے مقبوضہ کشمیر میں متعددعقوبت خانے قائم کر رکھے ہیں جہاں معلومات اور اعترافی بیانات حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کارگو، ہرینواس، پاپا1، پاپا2 بدنام زمانہ تفتیشی مراکز ہیں جہاں پوچھ گچھ کے دوران شدید تشدد کے باعث ہزاروں کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما محمد اشرف صحرائی، الطاف احمد شاہ اور غلام محمد بٹ دوران نظربندی وفات پا گئے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے معروف قائد سید علی گیلانی ستمبر 2021میں سرینگر میں گھر میں نظر بند ی کے دوران انتقال کر گے۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے انہیں ایک دہائی سے زائد عرصے سے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ممتاز آزادی پسند رہنما، محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو جعلی مقدمات کی بنیاد پر بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، میاں عبدالقیوم، ڈاکٹر حمید فیاض، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، مشتاق الاسلام، سید شاہد یوسف شاہ،سید شکیل یوسف شاہ، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی۔ عبدالاحد پرہ، فردوس احمد شاہ، نور محمد فیاض، امیر حمزہ، حیات احمد بٹ، شوکت حکیم، ظفر اکبر بٹ،، ایڈووکیٹ زاہد علی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، محمود ٹوپی والا، غلام قادر بٹ، رفیق احمد گنائی، عمر عادل ڈار، سلیم ننہ جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عادل سراج زرگر، داود زرگر،، اعجاز احمد،، عرفان احمد، عرفان بٹ،، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز، محمد احسن اونتو، صحافی، عرفان مجید، تاجر ظہور وٹالی سمیت پانچ ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں کالے قوانین کے تحت جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی زندگی 05 اگست 2019 کے بعد سے جہنم بن چکی ہے جب بی جے پی کی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے جموں وکشمیر پر اپنے غیر قانونی تسلط کو برقرا ر رکھنے کیلئے علاقے میں 10لاکھ سے زائد فورسز اہلکار تعینات کررکھے ہیں اور علاقے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا فوجی تعیناتی والا خطہ مانا جاتا ہے۔ 5 اگست 2019 سے اب تک 29ہزار 4سو90 سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیکر کیمپوں اور تھانوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیاجبکہ 2ہزار5سو 22کشمیریوں کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے زخمی کیا گیا۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، آئے روز مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں غیر جانب دار اداروں اور میڈیا کا داخلہ بند کر رکھا ہے۔ بھارت نے اظہار رائے کی آزادی سمیت کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق غضب کررکھے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اور پولیس کی قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل، غیرقانونی حراست، تشدد، پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال، املاک کو نقصان پہنچانا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا معمول بن گیا ہے۔ان سب کے ساتھ بھارت کے فاشسٹ سیکورٹی ادارے نہتے،معصوم اور بے قصور کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔ 10 لاکھ بھارتی فوج نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے، بھارت جنیوا کنونشن اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالے ا ور کشمیریوں کو ان کا پیدایشی حق دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و جبر اور بدترین انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والے ملک کو کوئی حق نہیں کہ وہ آزادی کا جشن منائے، جس کے جشن تلے کشمیریوں کا خون ہے، وہ کشمیریوں کی آزادی سلب کرکے کس منہ سے یوم آزادی منا رہا ہے، جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں ملتا اس وقت تک جب تک کشمیریوں کو ان کا بنیادی اور پیدائشی حق نہیں ملتا، ہندوستان کو آزادی کے جشن منانے کا کوئی حق نہیں، عالمی برادری کو اس بات کا نوٹس لینا چائیے کہ لاکھوں کشمیریوں کی آزادی سلب کر کے بھارت کس منہ سے یوم آزادی منا رہا ہے۔
واپس کریں