محمد ریاض ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے سب سے پہلے رولز یعنی قوائد 1956، دوسری مرتبہ 1980 جبکہ تیسری مرتبہ رواں برس مرتب کئے گئے۔ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ اور آرٹیکل 202 ہائیکورٹس کوبااختیار بناتا ہے کہ یہ عدالتیں، آئین اور قانون کے تابع، عدالتی اُمور کو منظم اورعدالتی طریقہ کارکو وضع کرنے کی بابت قوائد بنا سکتی ہیں۔ یاد رہے نئے قوائد کو ترتیب دینے کے لئے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے رواں برس 14 مارچ کو جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل چار رُکنی کمیٹی تشکیل دی۔اس کمیٹی نے ملک بھر کی بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنزاور ججوں کے ساتھ ملکر حتمی مسودہ تیار کیا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے تفصیلی غور و خوض اور منظوری کے بعد رواں ماہ اگست میں نئے قوائد نافذ کردیئے گئے۔
نئے قوائد عدالتی اُمور میں جدت، ڈیجیٹلائزیشن، عالمی معیار کے عدالتی نظام کیساتھ مطابقت کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دیئے گئے ہیں۔تقریبا نصف صدی پہلے بنے ہوئے قوائد میں شامل فرسودہ شقوں کو ہٹا کر نئے قوائد شامل کئے گئے ہیں۔ یہ قوائد عدالتی طریقہ کار کو آئین و قانون بلکہ دور حاضر کی ڈیجیٹلائزیشن کیساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گے۔ سپریم کورٹ قوائد، 2025 سات حصوں، اڑتیس آرڈرز، اور چھ شیڈولز پر مشتمل ہے، جس میں سابقہ قوائد کی تقریباً 280 دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں۔
اگر 1980 اور 2025 کے قوائد کا اختصار کیساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو2025 کے قوائد منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ:
دائرگی کا طریقہ: 1980 کے قوائد کے تحت صرف کاغذی دائرگی قبول تھی، جبکہ نئے قوائد کے تحت دائرگی مکمل طور پر ڈیجیٹل طریقہ کار کے تحت ہی قابل قبول ہوگی۔
سماعت کا طریقہ کار: پرانے قوائد کے مطابق فریقین/وکلاء کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا لازم تھا جبکہ نئے قوائد میں وڈیو لنک کے ذریعہ سماعت کی سہولت بھی موجود ہے۔
عدالتی فیس اور قانونی امداد: کئی عشروں بعد عدالتی فیسوں پر نظر ثانی، وکیل اور سرکاری اخراجات کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ فوجداری درخواستیں فیس سے مستثنیٰ ہیں (تصدیق شدہ کاپیوں کے علاوہ)؛ کاپیاں جیل سے جمع کرائی گئی درخواستوں کے لیے مفت ہیں۔ مجرمانہ معاملات سے متعلق، حبس بے جا اور آرٹیکل 184(3) کی درخواستیں فیس سے مستثنیٰ ہیں۔ رجسٹرار سزائے موت کے مقدمات میں ریاستی خرچ پر وکیل کا تقرر کر سکتا ہے۔ فیس، اخراجات،سیکیورٹی ڈیپازٹ کی ہر تین سال بعد نظرِ ثانی ہوا کرے گی۔
وکلاء یونیفارم: نئے قوائد کے مطابق وکلاء شیروانی یا سیاہ کوٹ پہن سکتے ہیں۔ گاؤن پہننا اب اختیاری ہے۔ جبکہ سینئر وکلاء چاہیں تو پورا سال گاؤن پہن سکتے ہیں۔
ریکارڈ تک رسائی: پرانے قوائد کے تحت عدالتی ریکارڈ / دستاویزات تک رسائی محدود تھی، جبکہ نئے قوائد کے تحت آن لائن سہولت کی بدولت ریکارڈ تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے۔
رجسٹرار کا اختیار و کردار: نئے قوائد کے تحت رجسٹرار کو عدالت کے دفتری، نگرانی اور انتظامی اُمور میں بہت زیادہ بااختیار بنایا گیا ہے جبکہ پرانے قوائد میں رجسٹرار کے اختیارات محدود تھے۔
دستاویزات کی نوعیت: نئے قوائد کے تحت دستاویزات سافٹ کاپی/آن لائن صورت میں دستیاب ہونگے جبکہ پہلے ایسا ممکن نہ تھا۔
بینچوں کی تشکیل: نئے قوائد میں 26 ویں آئینی ترمیم اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ بینچوں کی تشکیل، ترتیب کے نئے نظام و طریقہ کار یعنی بینچوں کی تشکیل کے لئے کمیٹی کے کردار کو وضح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنایا گیا ہے۔ جبکہ پرانے قوائد میں بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید /پسند ناپسند پر منحصر ہوا کرتی تھی۔
ہنگامی مقدمات: پرانے قوائد کے تحت عدالتی کاروائیاں طویل ہوجایا کرتی تھیں، جبکہ نئے قوائد کے تحت ہنگامی نوعیت کے مقدمات 14 دن میں نمٹانے کے لئے طریقہ کار وضح کیا گیا ہے۔
نظر ثانی اور اپیل: نئے قوائد کے تحت فیصلے کے خلاف صرف ایک نظر ثانی یا اپیل کی جاسکے گی۔ فضول نظرثانی /جائزے کی صورت میں جرمانے متعارف کروائے گئے ہیں۔ جبکہ پرانے قوائد کے تحت مخصوص شرائد نہیں تھیں۔
سوموٹو/توہین عدالت مقدمات: آرٹیکل 184(3) یعنی سوموٹو اور توہین عدالت مقدمات کے لئے انٹرا کورٹ اپیل تعارف کروائی گئی ہے جبکہ پرانے قواعد میں یہ سہولت موجود نہ تھی۔
انٹراکورٹ اپیل: نئے قوائد کے تحت انٹرلاکیوٹری آرڈرز کی اپیلیں کم از کم دو ججوں پر مشتمل بینچ سنے گا۔ جبکہ دیگر تمام اپیلیں، بشمول بریت کے خلاف، تین ججوں سے کم بینچ نہیں سنے گا۔
مقدمات کی منتقلی: نئے قوائد کے تحت فیملی کورٹس ایکٹ 1964 اور آرٹیکل 186A کے تحت منتقلی مقدمات کی درخواستیں اب تسلیم شدہ ہوں گی۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ: نئے قوائد کے تحت سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی رجسٹریشن کے لیے تحریری ٹیسٹ ختم کر دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں پانچ سال کی سٹینڈنگ رکھنے والا وکیل رجسٹریشن کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔
یاد رہے یہ تقابلی جائزہ اختصار کیساتھ کیا گیا ہے۔ عوام الناس اور خصوصا وکلاء برادری کی سہولت و مطالعہ کے لئے سپریم کورٹ کے نئے قوائد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ دہائیوں پرانے قوائد انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں اضافے کا سبب تھے۔ پاکستانی نظام انصاف کو بہتر کرنے کے لئے دورِحاضر کے تقاضوں خصوصا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعتوں و فوائد کو سمیٹنا اشد ضروری تھا۔ رواں برس سپریم کورٹ میں دائرگی کے لئے ای سسٹم کو متعارف کروانا بھی اسی سلسلہ کی اک کڑی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دہائی کے اختتام پر پاکستانی اعلی عدلیہ سے متعلقہ قوانین و قوائد کا از سرنو جائزہ لیا جائے تاکہ نئے قوانین و قوائد مرتب کئے جاسکیں۔
واپس کریں