
ویسے ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ن لیگ کو وکھرا ای کیڑا ہے جو ہر اڑتے تیر کے سامنے اپنی پْشت کر دیتی ہے اور اپنا ووٹ بینک خراب کرنے میں ذرا بھی دریغ نہیں برتتی۔
اب چینی کو ہی دیکھ لیں گنے کا آف سیزن ہے، آف سیزن میں ہر چیز کا ریٹ کچھ بڑھ جاتا ہے اگر دس بیس روپے چینی میں بڑھ بھی جائینگے تو کونسا قیامت آ جائیگی ہر گھر میں زیادہ سے زیادہ پانچ سات کلو چینی فی ماہ خرچ ہوتی ہے یعنی ڈیڑھ دو سو روپے زیادہ زیادہ فرق پڑے گا جبکہ ڈیڑھ دو ہزار کا پیزا ہم کھڑے کھڑے کھا جاتے ہیں اور جن غریبوں کی ہمدردری کے انکے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں وہ الٹا الیکشن میں چوہدریوں، ترینوں اور خسرو بختیاروں کے پیچھے لگ کر آپ کے سر پہ مْوت رہے ہوتے پیں۔سرکار زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرے ریٹ کو سپلائی اور ڈیمانڈ پہ چھوڑ دے۔
اور مداخلت کا کوئی فائدہ بھی تو ہو الٹا چینی دوکانوں پہ ناپید ہوگئی ہے کیونکہ دوکاندار کہتا ہے کہ جس ریٹ پہ حکومت کہتی ہے اس ریٹ پہ ملتی ہی نہیں تو بیچیں کیسے۔ سرکار نے کوٹہ سسٹم پہ سپلائی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے مگر اپنا کام کاج چھوڑ کے چار چار گھنٹے لائین میں کھڑے ہونے پہ زیادہ سے زیادہ ایک تھیلا ملتا ہے یا وہ بھی نہیں ملتا کہ ختم ہوگئی ہے اس لئے ہم رکھتے ہی نہیں کون روز روز جرمانے بھرے اور دلچسپ بات یہ ہے نہ رکھنے پر بھی جرمانہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر سارا سال چینی ایک ریٹ پہ ہی ملے تو اسٹاکئے اسٹاک ہی کیوں کریں کون اپنے پیسے بغیر منافع کے سال بھر کے لئے باونڈ کرے۔
اگر وہ اسٹاک نہ کریں تو سال بھر چینی کی سپلائی کا تسلسل کیسے برقرار رہے ۔
دوسرا پیرا فورس نے تاجروں کی ڈٔنب لینی کی ہوئی ہے یہاں جس کے ہاتھ میں لٹھ آ جائے وہی فرعون بن جاتا ہے اب بتائیں کہ ایک شخص ایک دوکان لے کر کوئی پتیلا ہوٹل بنا لیتا ہے اس نے تندور باہر ہی لگانا ہے یا اس کے لئے ایک الگ سے دوکان لے اور اس کا علیحدہ کرایہ بھرے اوپر سے یہ پریشر بھی ہے کہ سستا بیچو۔
اور یہ ہزاروں خوانچہ فروش کہاں جائیں جنکو آپ نے بیروزگار کر دیا ہے اگر وہ جرائیم کی طرف آ جائیں تو سی سی ڈی پار کر دے گی پیچھے خودکشی ہی بنتی ہے یا دوسرے صوبوں کو ہجرت کر جائیں اور چھلیاں بھون کر بیچیں۔
واپس کریں