دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گندا ہے پر دھندہ ہے یہ
ناصر بٹ
ناصر بٹ
آپ جب دل چاہے ہائی کورٹ یا ماتحت عدالتوں میں جائیں آپکو ہر وقت وہاں کوئی نہ کوئی الیکشن ہوتا نظر آئیگا۔
سال میں چار بڑے الیکشن اور سارا سال ان الیکشنز کی مہم چلتی رہتی ہے۔
ان الیکشنز کولڑنے والے ان پر اب کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں کیونکہ ان میں جیتنے والے اگر حددرجہ نالائق اور نااھل بھی ہوں تو انہیں اپنی پریکٹس میں مال پانی کی کمی نہیں رہتی۔
اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا جو کہ خود پی ٹی آئی کے ریاض فتیانہ نے پیش کیا کہ ان الیکشنز میں منتخب ہونے والوں کی مدت دو سال کر دی جائے۔
اب اس پر لاہور ہائیکورٹ کے صدر کو پی ٹی آئی کے ہی حمایت یافتہ ہی ان کا ردعمل دیکھ لیجیے۔
ایسا ردعمل کیوں ہے؟
یہ ایسی کونسی بنیادی جمہوری اور انتخابی حقوق پر قدغن ہے جس سے صدر بار اتنے برہم ہو رہے ہیں؟
جو بھی صدر ہو گا اسے وکلاء ہی منتخب کریں گے اور اسکی مدت دو سال کرنے سے کونسے حقوق متاثر ہو گئے؟
منتخب ہونے والا کیا اپنا جو بھی اصلاحاتی ایجنڈا ہے اسے ایک سال میں پورا کر سکتا ہے؟
میرے نزدیک تو اسکی مدت تین سال ہونی چاھیے تاکہ وکلاء اپنے تعصبات کے ساتھ جن کو اپنے نمائیندے منتخب کرتے ہیں یا تو انہیں یہ نمائیندے بھگتنا بھی پڑیں یا اگر کوئی اچھا بندہ کوئی اصلاحاتی ایجنڈہ رکھتا ہے تو اسے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مناسب وقت مل سکے۔
گڑ بڑ صرف یہ ہے کہ وکلاء زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بار عہدے دار بنا کے اس رعب داب کا فایدہ اٹھانے کا موقع دینا چاھتے ہیں کیوں کہ بار کا کوئی عہدے دار ایک دفعہ بھی منتخب ہو جائے تو ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ سابق صدر،سابق جنرل سیکرٹری وغیرہ لکھواتا ہے اور ججز کو مرعوب کرنے کے لیے اسے استعمال کرتا ہے اسی لیے یہ ہر سال کسی نئے کو موقع دلوانا چاھتے ہیں۔
سائلین رلتے رہتے ہیں اور وکلاء الیکشن الیکشن کھیلتے رہتے ہیں۔
واپس کریں