دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صارف عدالتیں بند کرنے کا غیر منصفانہ اقدام
No image پنجاب کے 17اضلاع میں قائم صارف عدالتوں کو ختم کر دیا گیا۔ ان میں جاری کیس سیشن کورٹس منتقل ہوں گے جبکہ صارف عدالتوں کے ججز کو لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں پنجاب میں 11صارف عدالتیں 2007ء میں قائم کی گئی تھیں، بعد میں ان عدالتوں کی تعداد بڑھا کر 17 کردی گئی۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا نظام پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے، جہاں سیشن عدالتوں میں سالہا سال مقدمے التوا میں پڑے رہتے ہیں اور عام آدمی انصاف کے حصول میں عمر کھو دیتا ہے۔ ایسے میں صارف عدالتیں ایک روشنی کی کرن تھیں جو بغیر کسی وکیل، بغیر کسی فیس اور بغیر کسی پیچیدہ قانونی تقاضے کے عام شہری کو جلد اور سستا انصاف فراہم کر رہی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر حکومت نے ان عدالتوں کو قومی خزانے پر ’بوجھ‘ قرار دے کر بند کر دیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ جو نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ سراسر عوام دشمن بھی ہے۔ یہ عدالتیں 18 سال تک ایک خاموش خدمت سرانجام دیتی رہیں۔ یہ وہ ادارے تھے جہاں غریب اور متوسط طبقے کا فرد بڑی کمپنیوں، اداروں، دکانداروں یا سروس پرووائیڈرز کے خلاف کھڑا ہو سکتا تھا اور اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے خود لڑ سکتا تھا۔ اب اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ سیشن کورٹ کا رخ کرے، وکیل کرے، بھاری فیسیں دے، برسوں انتظار کرے اور آخرکار انصاف کی تلاش میں تھک ہار جائے۔ کیا یہی ریاست کا انصاف ہے؟افسوس کی بات یہ ہے کہ ’قومی خزانے پر بوجھ‘ صرف وہ ادارے سمجھے جاتے ہیں جو عام آدمی کو سہولت دیتے ہیںیا اس کی آواز بنتے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی پرتعیش گاڑیاں، وزراء کے بے شمار دفاتر، وزرائے اعظم کے محلات اور افسر شاہی کی فضول مراعات پر روزانہ کروڑوں روپے کا خرچ بوجھ نہیں ہے۔ کیا ایوانِ صدر بوجھ نہیں؟ کیا وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کے اخراجات بوجھ نہیں؟ کیا ہر سال نئی گاڑیوں کی خریداری، غیرضروری پروٹوکول اور ایک ایک کام کے لیے بیس بیس افسروں کی تعیناتی قومی خزانے پر بوجھ نہیں؟ ایک کام کے لیے 20، 20 آفیسر رکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو کام مہینوں میں کرتے ہیں کمپیوٹر کی ایک کلک پر چند سیکنڈ میں ہو جاتا ہے۔ صرف وہ صارف عدالتیں بوجھ بن گئیں جو عام آدمی کو سہولت دے رہی تھیں؟ یہ دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ ٹیکس چوری کون کرتا ہے۔ سیاست دان، بیوروکریسی، بڑے بڑے صنعتکار، لیکن قربانی کون دیتا ہے؟ عام مزدور، تنخواہ دار طبقہ، دیہاڑی دار، وہ شہری جو ہر چیز پر سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ عام آدمی اپنے حصے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے پھر بھی اس کے لیے تھوڑی سی سہولت بھی ’خزانے پر بوجھ‘ بن جاتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ ہر حکومت وہی پالیسی اپناتی ہے جس سے اشرافیہ کو فائدہ پہنچے۔ عام آدمی کو صرف نعرے ملتے ہیں، سہولتیں نہیں۔ یہ فیصلہ کہ صارف عدالتیں ختم کی جائیں، ایک مذاق ہے ان عوام کے ساتھ جو پہلے ہی نظامِ انصاف سے نالاں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حکومت نے طاقتور طبقے کی سہولت کے لیے کمزور کی امید چھین لی ہے۔ یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ صارف عدالتوں کو بحال کیا جائے۔ اگر واقعی قومی خزانے پر بوجھ کم کرنا ہے تو اشرافیہ کی مراعات بند کریں۔
بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں