دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
منشیات کی عالمی مارکیٹ اور ہم
No image دنیا بھر میں 15 ملین سے زیادہ افراد، افیون، مارفین،چرس اور ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔ بڑی اکثریت ہیروئن کا استعمال کرتی ہے، جو کہ سب سے زیادہ مہلک شکل ہے۔ ہر سال زیادہ استعمال کنندگان ہیروئن کے استعمال سے متعلق مسائل کی وجہ سے مرتے ہیں اور زیادہ افراد کسی آئس یا دیگر منشیات کا نشہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ منشیات میں افیون، علاج کی وجہ سے مہنگی ہے۔ اس کے علاوہ، ہیروئن وہ دوا ہے جو سب سے زیادہ انجیکشن کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، جو بعد میں دائمی صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہے، جس میں خون سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے HIV/AIDS اور ہیپاٹائٹس سی کی منتقلی شامل ہے۔ وسطی ایشیا، یوکرین اور روسی فیڈریشن میں، افیون کے انجیکشن تمام HIV انفیکشنز میں سے تقریباً 60-70% سے منسلک ہیں۔
علاج و معالجہ کے حوالے سے ہٹ کر، افیون کی غیر قانونی صنعت ABO کئی جگہوں پر استحکام اور قومی سلامتی پر بھی باعث حملہ ہے۔ مثلاً، منشیات یا افیون کی فنڈنگ کے ذریعے پیداواری علاقوں، خاص طور پر افغانستان اور ملحقہ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کا استعمال وغیرہ۔ 1998 میں، منشیات کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس نے پہلے ہی منشیات کی غیر قانونی پیداوار، اسمگلنگ اور دہشت گرد گروہوں کے ملوث ہونے کے درمیان روابط پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
منشیات کے غیر قانونی کاروبار نے ریاستی اداروں اور ملک کے سیاسی و سماجی نظام پر براہ راست منفی اثرات ثبت کیئے ہیں بلکہ منشیات کے سمگلنگ گروپس نے دراندازی کی شکل اختیار کر لی ہے۔دنیا بھر میں پروڈیوسر سے صارفین تک افیون حاصل کرنا منظم اور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس کی 55 بلین امریکی ڈالر کی تخمینہ شدہ سالانہ مارکیٹ ویلیو ہے جبکہ غور کیا جائے تو یہ تعداد US$65 بلین تک پہنچ سکتی ہے۔ اس غیر قانونی کاروبار کو مختلف ممالک اور خطوں میں منتقل کرنے میں ملوث اسمگلروں کی تعداد کے بارے میں ایک اندازے کے مطابق ممکنہ طور پر 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہوں گے۔
منشیات کی زیر زمین معیشت کے لیے سپلائی کا ذریعہ اب تین علاقوں میں مرکوز ہے۔ افغانستان، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ ہیں، جہاں سے دنیا کی تقریباً تمام غیر قانونی افیون اور ہیروئن فراہم کی جاتی ہے لیکن افغانستان اس لیئے نمایاں ہے کہ یہاں سے حالیہ برسوں میں عالمی غیر قانونی افیون کی پیداوار کا تقریباً 90 فیصد حصہ پروڈیوس ہوا ہے۔
یاد رہے،ایک کلو ہیروئن بلیک مارکیٹ میں ڈیڑھ کروڑ تک کی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ 65ارب ڈالر کا دھندہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ہیروئن کی پاکستان افغان باڈر پر تجارت بارے تفصیل سے بتایا گیاہے۔ مثلاًپاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے منشیات کی سمگلنگ کے لیے ایک اہم راہداری ملک سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر افغانستان سے ملحقہ سرحدوں کی وجہ سے، جہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات، جیسے ہیروئن، چرس، اور میتھامفیتامین (آئس)، سمگل کی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کے مطابق، پاکستان منشیات کی عالمی تجارت کے ایک مصروف روٹ پر واقع ہے، جہاں سے افغانستان کی 40 فیصد ہیروئن اور چرس گزرتی ہے۔ منشیات کی سمگلنگ سے پاکستان کی معیشت کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ملک کو منشیات کی اس غیر قانونی تجارت سے 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور تقریباً ایک کروڑ پاکستانی، جن کی عمر 24 سے 39 سال کے درمیان ہے، منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ خار دار اور باڑ لگی سرحدوں پر وہ کون ہے،جہاں کسی کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا اور کس کی آشیر باد سے سرحدوں سے منشیات کی اسمگلنگ ہوتی ہے؟جس باعث عالمی سطح پر ملک کی مسلسل بدنامی ہورہی ہے۔
واپس کریں