
جب بھی دنیا "جنگ بندی" اور "مذاکرات" کی بات کرتی ہے، تب ہی پردے کے پیچھے گولہ بارود کے گودام بھرے جا رہے ہوتے ہیں، اور امن کی باتیں صرف میڈیا کے لیے رہ جاتی ہیں۔ آج یہی منظر اسرائیل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایرانی حملوں کے بعد جس رفتار سے مغربی دنیا اسرائیل کو اسلحے سے لیس کر رہی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف دفاع نہیں، بلکہ ایک بڑے حملے کی تیاری ہے۔
جب ایک طرف اقوامِ متحدہ اور مغربی دارالحکومتوں سے امن کی صدائیں بلند ہو رہی ہوں، اور دوسری طرف جہازوں میں بھر کر اسلحہ اسرائیل بھیجا جا رہا ہو — تو سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ منافقت نہیں؟ مغربی ممالک ایک جانب ثالثی کا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور دوسری جانب اپنے عسکری سازوسامان سے میدان جنگ کو مزید آگ بھڑکانے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
نواتیم ایئر بیس کا تذکرہ اب محض ایک ہوائی اڈے تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ اب اسرائیل کے لیے مغربی ہتھیاروں کی ترسیل اور تقسیم کا مرکز بن چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں سے ملنے والے اسلحے کو نہ صرف داخلی دفاع بلکہ بیرونی مہمات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے — خاص طور پر شام، لبنان اور ممکنہ طور پر ایران میں ٹارگٹڈ آپریشنز کے لیے۔
یہ تیز رفتار اسلحہ ترسیل صرف اسرائیل کی حفاظت کے لیے نہیں، بلکہ ایران کو ایک واضح پیغام دینے کے لیے ہے: اگر تم نے حملہ کیا، تو ہم تمہیں مغرب کی مکمل فوجی طاقت کے ساتھ جواب دیں گے۔ یہ پیغام نہ صرف ایران بلکہ خطے کے دیگر ممالک — خاص طور پر حزب اللہ، شام اور فلسطینی گروہوں — کے لیے بھی ہے۔
مشرق وسطیٰ پہلے ہی عدم توازن، خانہ جنگیوں اور پراکسی وارز کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں اسلحے کی یلغار صرف بارود پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سے نہ صرف علاقائی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھے گی بلکہ ممکنہ طور پر ایک عالمی محاذ آرائی کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
اس ساری صورتحال میں مغربی میڈیا کا کردار بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ جہاں روس یا کسی اور ملک کے خلاف اسلحہ بھیجنے پر صدائیں بلند ہوتی ہیں، وہاں اسرائیل کی پشت پر دیے گئے اسلحے کی بارش پر مکمل خاموشی ہے۔ یہ دوہرا معیار، بین الاقوامی اخلاقیات کے لیے ایک المیہ ہے۔
اسرائیل کو مغرب کی جانب سے غیر معمولی اسلحے کی فراہمی یہ ثابت کرتی ہے کہ جنگ ابھی رکی نہیں — بلکہ شاید اصل جنگ کا آغاز اب ہونے جا رہا ہے۔ اگر عالمی برادری واقعی امن کی خواہاں ہے، تو اسلحے کے ان قافلوں کو روکنا ہو گا، ورنہ تاریخ یہ ضرور لکھے گی کہ جنگ صرف مشرق میں لڑی گئی، مگر اُسے مغرب نے ایندھن دیا۔
واپس کریں