اسرائیل اور امریکہ کی ایران پر جارحیت کے اثرات کو سمجھنےکے لئے 6 اہم نکات۔

(عمار علی جان)1۔ اس جارحیت کا مقصد ایٹمی ہتھیار کا خاتمہ یا انسانی حقوق کی بحالی نہیں تھا۔ یہ اسرائیل کی طرف سے ایک سازش تھی جس کا بنیادی مقصد ایرانی حکومت کا تختہ الٹانے کے ساتھ ساتھ اس کی ریاست کو تباہ کرکے صہونی کنٹرول مسلط کرنا تھا۔ پہلے دن ہی نیتن یاہو نے ایرانی عوام سے بغاوت کرنے کی اپیل کی جبکہ رضا شاہ پہلوی نے دوسرے دن اعلان کردیا کہ ایران "جمہوری نظام" کے لئے تیار ہے۔ چند دن بعد امریکہ نے بمباری شروع کی اور رجیم چینج کا باقاعدہ ذکر کرڈالا۔
2۔ یہ پلان بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ ٹویٹر پر ایک آڈیو گردش کررہی ہے جس میں اسرائیلی انٹیلیجنس کے نمائندے ایرانی کمانڈروں کی شہادت کے بعد جونیئر جنرلوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف وڈیو میسج بنا کر ملک سے بھاگ جاؤ ورنہ بیوی بچوں سمیت قتل کردیئے جاو گے۔ پہلے دن کے شدید دباؤ کے باوجود نہ فوجی بغاوت ہوئی اور نہ عوامی تحریک اٹھی۔ بہت تیزی سے ملٹری کمانڈ کی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور نئی قیادت نے اسرائیل پر بھرپور حملے کرکے اپنی فوجی صلاحیت کو منوایا جبکہ ایران کے اندر حکومت کے حامی اور مخالفین دونوں بڑی تعداد میں نیتن یاہوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس طرح اسرائیلی عزائم کو شکست ہوئی اور ایران کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔
3۔ امریکی سامراج کا زوال تیز ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد جاری اسرائیلی بمباری اور ایران کی طرف سے جوابی حملے پر ٹرمپ نے شدید غصے کا ظہار کرتے ہوئے لائو ٹی وی پر گالی بک ڈالی۔ یہ ٹرمپ اور امریکہ کی عالمی معاملات میں بے بسی کا اظہار ہے۔ اس سے پہلے یوکرائن اور روس کی لڑائی میں بھی دونوں ممالک اور ان کے اتحادیوں نے امریکی کی طرف سے جنگ بندی کی کوشش کو ٹھکرا دیا تھا۔
4۔ یوکرائن کے معاملے پر نیٹو اور ایران کے معاملے پر اسرائیل سے اختلافات اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی زوال کی وجہ سے استعماری کیمپ میں تضادات اور اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔ یورپ 1945 کے بعد پہلی بار اپنا دفاعی بجٹ بڑھارہا ہے جبکہ اسرائیل اپنی جارحانہ حکمت عملی کو امریکی خارجہ پالیسی سے آزاد کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دیگر ممالک اس وقت شدید کشمکش اور دباؤ کا شکار ہیں۔ خلیجی ریاستیں امریکہ کے ساتھ ساتھ چین سے بھی روابط بڑھارہی ہیں جبکہ حال ہی میں قطر نے ایرانی حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی تناظر میں پاکستان کا بیک وقت امریکی حملے کی مذمت اور ٹرمپ کی نوبل پرائز کے لئے نامزدگی کو دیکھا جاسکتا ہے جسے انگریزی میں hedging your bets کہتے ہیں یعنی غیر یقینی صورتحال میں دونوں اطراف کھیلنے کی کوشش کرنا۔
5۔ ایران کے اندر جنگ سے پہلے حکومت پر مہنگائی اور دیگر ایشوز کے اوپر شدید تنقید موجود تھی۔ کچھ عرصے بعد اس تنقید کا اظہار ایک بار پھر شدت اختیار کرے گا۔ ان تضادات کو اسرائیل اور امریکہ نے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن ایران کی عوام نے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے با آسانی اندرونی جدوجہد اور بیرونی استعماری حملوں میں فرق کیا۔ یہ ہمارے دور کی ایک خاصیت ہوگی جس میں تیسری دنیا کے ممالک، خصوصی طور پر West Asia کے مسلم ممالک میں استعماری اندرونی تضادات کو خطے کی تباہی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ سماجی اور انقلابی تحریکوں کی شعوری اور تاریخی زمینداری ہوگی کہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ملک کا دفاع کریں جبکہ عام حالات میں اندرونی جدوجہد کو تیز کریں۔ یہ پالیسی چین میں جاپان کے حملے دوران ماو ذی تنگ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے حریفوں سے اتحاد جبکہ حملے کے بعد انہی حریفوں کے خلاف شدید جدوجہد کی پالیسی بنائی تھی۔ یہ تضاد ماو کے ذہن میں نہیں، بلکہ تاریخ اور معروض کے اندر شامل تھا جس کو سمجھے بغیر طبقاتی جدوجہد معروض سے کٹ کر محض لفاظی میں تبدیل ہوجاتی یے۔
6۔ دنیا کے استحکام کے لئے نئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بے معنی ہوگئے ہیں۔ آج جو غیر یقینی کی صورتحال ہے اس کو ختم کرنا ناممکن ہے جب تک کوئی متبادل قوت کے مراکز قائم نہیں ہوتے۔ سیاسی تحریکوں اور دانشوروں کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر مظلوموں کے لئے آواز اٹھائیں اور اس کے ساتھ ساتھ علاقائی ہم آہنگی کے لئے پریشر بنائیں تاکہ طاقت کا جو توازن 1991 میں سوویت یونین کے انہدام سے ٹوٹ گیا تھا، اس کو بحال کیا جاسکے۔ امریکہ اور اسرائیل ہمیں ایک کھنڈرات کی دنیا کی طرف لے جارہے ہیں اور ان کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ علاقائی اتحاد ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کو بھی ڈالری جنگوں سے نکل کر خطے کی قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات مزید گہرے کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن حکمران طبقات اگر خطے میں ماضی کی طرح اغیار کا ساتھ دیں گے تو وطن اور اپنے وسائل کے تحفظ کی ذمہ داری انقلابی نوجوانوں کو ہی پوری کرنا پڑے گی۔
واپس کریں