دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایران نے اسرائیل کو کاری ضربیں لگائی ہیں۔امریکی فوجی اور سابقہ اسلحہ انسپکٹر سکاٹ ریٹر
No image امریکی فوجی اور سابقہ اسلحہ انسپکٹر سکاٹ ریٹر نے کہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو کاری ضربیں لگائی ہیں۔ حیفہ کی بندرگاہ مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے۔ بن گوریئن ائیر پورٹ بری طرح hit ہوا ہے۔ گیس کی تنصیبات ختم ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کے اندر کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اور یہ صرف وہ کچھ ہے جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے، اور بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فضائیہ اپنی ائیر بیسز سے محفوظ طریقے سے اُڑان بھی نہیں بھر سکتی۔ اسی لئے وہ برطانیہ کے زیر انتظام قبرص کے فوجی اڈوں کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ صورتِ حال آنے والے دنوں میں مزید بگڑنے والی ہے۔
امریکہ نے اربوں ڈالر جھونک کر جو دفاعی نظام تیار کیا، جسے آئرن ڈوم کہتے ہیں، وہ بیکار ہو چکا ہے۔ جو میزائل روکے بھی جا رہے ہیں، وہ صرف وہی ہیں جنہیں روکنے کے لیے ہی چھوڑا گیا ہے۔ ایران نے دس بیس سال پرانے میزائلوں کو اس طریقے سے تیار کیا ہے کہ وہ ڈیفنس سسٹم کو الجھا لیتے ہیں، دفاعی نظام انہیں حقیقی سمجھ کر ان پر لپکتا ہے اور اصل میزائل کامیابی سے اپنے ہدف کو سٹرائیک کر جاتا ہے۔
امریکہ کے پاس اب دینے کو مزید میزائل بھی نہیں بچے۔ ایشیاء پیسیفک کمانڈ کے افسران اب سوال کر رہے ہیں کہ چین کے خلاف اگر کوئی کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم دفاع کس سے کریں گے؟ سب کچھ اسرائیل پر قربان ہو چکا ہے۔ نیمتز جیسے بحری بیڑے کو بھی مشرقِ وسطیٰ منتقل کر دیا گیا ہے، جس سے پورے جنوبی چین کے سمندر کا دفاع کمزور پڑ گیا ہے۔
صدر کی "گولڈن ڈوم" جیسی باتیں محض خواب ہیں۔ جس منصوبے پر 175 ارب ڈالر خرچ کرنے کی بات ہو رہی ہے، وہ ٹیکنالوجی ابھی وجود ہی نہیں رکھتی۔ اور اگر وہ نظام بن بھی گیا تو کئی دہائیاں لگیں گی اور اس کی قیمت کھربوں ڈالر تک جا پہنچے گی۔
مسئلہ صرف نظام کا نہیں، قیادت کا ہے۔ صدر کی ناتجربہ کاری اور جہالت کی قیمت اسرائیلی عوام چکا رہے ہیں اور ان سے کوئی ہمدردی بھی نہیں رکھتا، کیوں کہ انہوں نے غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے کیا کچھ نہیں کیا؟ ہزاروں معصوم فلسطینی، عورتیں، بچے قتل کیے گئے، اور دنیا خاموش رہی۔
اب ایران نے جو جوابی کارروائی کی ہے، اس میں ٹارگٹڈ حملے ہو رہے ہیں، لیکن اسرائیل ابھی بھی اندھا دھند بمباری کر رہا ہے۔ ایک ہی عمارت میں 26 بچوں سمیت 60 افراد شہید کر دیے گئے، مگر دنیا خاموش ہے۔
یہ وہی اسرائیل ہے جو خود کو دنیا کی سب سے "اخلاقی" فوج قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ بدترین درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے بغیر کسی قانونی جواز کے ایران پر حملہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کا قانون، بین الاقوامی ضابطے سب پامال کر دیئے گئے۔
ایران نے جو جوہری معاہدہ کرنے کی تیاری کی تھی، اس پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ ایران نے IAEA کے ساتھ مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ امریکی معائنہ کاروں کو بھی آنے دینے پر آمادہ تھا۔ لیکن امریکی صدر نے ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ ایران کو لگا کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، لیکن پسِ پردہ ان کی مذاکراتی ٹیم ہی مار دی گئی۔ شمع خانی سمیت وہ سب لوگ جنہوں نے ایران کو امن کی راہ پر لانے کی کوشش کی، شہید کر دیئے گئے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہوا تاکہ ایران کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ یہ حملہ "پرل ہاربر" جیسا خفیہ اور بے بنیاد تھا۔ اور ہم امریکی اس جرم کے مرتکب تھے۔
بدترین بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کروا رہے ہیں، وہ ناسمجھ، احمق اور لاپرواہ لوگ ہیں۔ صدر کے اردگرد کوئی سنجیدہ، باشعور مشیر موجود نہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے مشورے لے رہا ہے جو جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں۔ اور اس جنگ کی قیمت پوری دنیا ادا کر رہی ہے۔
سکاٹ ریٹر کہتا ہے کہ روس واضح کر چکا ہے کہ وہ پہل نہیں کرے گا، لیکن اگر امریکہ نے ایران پر ایٹمی حملہ کیا تو روس یورپ کو نشانہ بنائے گا۔ یہ خطرہ حقیقی ہے، اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ کی قیادت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
یہ سب کچھ صدر کی کمزوری، خودغرضی اور ناقابلِ اعتبار شخصیت کی وجہ سے ہوا۔ جو شخص بار بار امن کی بات کرتا ہے، لیکن کسی کے دباؤ میں آ کر جنگ چھیڑ دیتا ہے، وہ نہ لیڈر ہے، نہ مرد، بلکہ ایک کمزور، جذباتی اور خود فریبی میں مبتلا انسان ہے۔
دنیا میں جو تھوڑی بہت امید باقی تھی، وہ ان رہنماؤں کے ذریعے زندہ تھی جو مشرقِ وسطیٰ میں تجارت اور ترقی کی بنیاد پر نیا مستقبل چاہتے تھے۔ لیکن امریکی صدر نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
سکاٹ ریٹر آخر میں سوال پوچھتا ہے کہ ہم، یعنی عام لوگ، کہاں کھڑے ہیں؟
کوئی احتجاج نہیں، کوئی تحریک نہیں۔ گویا سب نے ظلم کو قبول کر لیا ہے ہم collectively ناکام ہو چکے ہیں۔
واپس کریں