مغربی تسلط کے خاتمے اور سامراج مخالفت کی نئی لہر پھیل چکی ہے

(تحریر ،عمار علی جان) کیپٹن ابراہیم تراورے اس وقت افریقہ کے مقبول ترین لیڈر کے طور ہر ابھر رہے ہیں۔ افریقہ کے اندر مغربی تسلط کے خاتمے اور سامراج مخالفت کی نئی لہر پھیل چکی ہے جس کی قیادت 37 سالہ تراورے کرہے ہیں۔ وہ 2022 میں برکینا فاسو میں ایک فوجی آمر کے خلاف جونیئر افسران کی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے۔ اس بغاوت کا پس منظر افریقہ کے کئی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مغرب کی افریقہ کے معدنیات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دونوں عوامل، یعنی جنگ اور معدنیات، اس وقت پاکستان کے لئے بھی خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
2015 سے برکینا فاسو اور اس کے ہمسائے ممالک میں جاری جنگ نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی۔ کیونکہ اس خطے پر فرانس کا نوآبادیاتی تسلط رہا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ فرانس ایک نمایاں عسکری کردار ادا کررہا تھا۔ لیکن خطے کے اندر یہ بات واضح ہونا شروع ہوگئی کہ فرانس اس جنگ کے خاتمے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور مسلسل جنگ کی آڑ میں مغربی کمپنیوں کو ان ممالک کی معدنیات تک رسائی دلوانا چاہتا یے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ میں بھی شدت آتی رہی اور مغربی کمپنیاں اور ان کے مقامی سہولت کار منافع بھی کماتے رہے۔
اس عمل کو سمجھنے کے لئے افریقہ کی تاریخ میں مغربی استعمار کے کردار کو سمجھنا بہت اہم یے۔ 17 ویں صدی سے ہی افریقہ کو بنیادی طور پر معدنیات، زراعت اور لیبر کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا گیا تھا۔ اس کی سب سے زیادہ بھیانک مثال افریقی نوجوانوں کو امریکہ میں غلامی میں دھکیلنا تھا جو آج تک جدید نسل پرستی کی بنیاد ہے۔ تاریخ دان اس بات پر اب متفق ہیں کہ افریقی غلاموں کی محنت کے بغیر امریکہ کی سیاسی اور معاشی بنیاد سمجھنا ناممکن ہے۔ 19 ویں صدی میں افریقہ کے تقریبا ہر ملک پر مغربی تسلط قائم ہوچکا تھا۔ 1884 میں برلن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یورپی طاقتوں نے افریقہ کے نقشے پر لکیریں کھینچ کر براعظم کو آپس میں تقسیم کیا۔ اس تمام عمل میں کسی افریقی باشندے کی رائے تک نہ پوچھی گئی کیونکہ مغربی حکومتیں اور دانشور یہ بات باور کروا چکے تھے کہ افریقی عوام میں فیصلہ سازی کی صلاحیت نہیں ہے۔
اس استحصالی نظام اور اس سے جڑی متعصبانہ سوچ کے خلاف 1950 کی دہائی کے بعد پورے براعظم میں انقلابی تحریکوں نے جنم لیا۔ کینیا سے لے کر جنوبی افریقہ اور کانگو سے لے کر سینیگال تک سیاہ فام لوگوں نے صدیوں کی غلامی کے خلاف بغاوت کے علم بلند کردئے۔ اس کا اثر امریکہ میں بھی ہونا شروع ہوا جہاں نسل پرستی کے خلاف Rosa Parks, Martin Luther King Jr, اور Malcom X جیسے لیڈران ابھر کر سامنے آئے۔ افریقہ میں بڑھتی ہوئی بغاوت کو سوویت یونین، چین اور کیوبا کی حمایت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے یہ آزادی کی جنگیں سوشلزم کے نظریے کے ساتھ جڑ گئیں۔
لیکن یہ سب کچھ مغربی قوتوں کے لئے ناقابل قبول تھا۔ ان انقلابات کے خلاف ایک عالمی ردانقلابی مہم چلائی گئی جس میں حکومتوں کے تختے الٹانے سے لے کر تحریکوں کو کچلنے تک کا کام کیا گیا۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کے نوجوان لیڈر نیلسن مینڈیلا کو گرفتار اور پابند سلاسل کرنے میں مغربی انٹیلیجنس کا ہاتھ تھا۔ اس لائحہ عمل کی بدترین مثال کانگو میں ملتی ہے جو معدنیات کے لحاظ سے امیر ترین ملک ہے لیکن اس کی عوام غربت میں ڈوبی ہوئی ہے۔1961 میں وہاں پر Patrice Lumumba کی انقلابی حکومت کا تختہ بیلجیئم اور سی آئی اے نے مل کر الٹا دیا جس کے بعد وہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا جس سے آج تک نہیں نکل سکا۔
اسی تاریخ کا اثر برکینا فاسو پر بھی پڑا جہاں پر Thomas Sunkara نامی ایک نوجوان ملٹری افسر نے 1983 میں سینیر قیادت کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار سنبھال لیا۔ سنکارا ایک مارکسٹ لیڈر تھے جنہوں نے مغربی قرضے دینے سے انکار کرکے سامراج سے براہ راست دشمنی مول لے لی۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب پر افریقہ کا تاریخی ادھار ہے اور اب افریقہ اپنے وسائل مغربی بینکوں کو قرضے دینے کے بجائے اپنے عوام کی تعلیم و ترقی پر لگائے گا۔ 1987 میں فرانس اور امریکہ نے مل کر ایک ردانقلابی فوجی ٹولے کے ذریعے سنکارا کی حکومت کا تختہ الٹوا کر اس کو قتل کروادیا اور ایک بار پھر وہاں پر کمپنی راج قائم کردیا۔
ابراہیم تراورے کا موازنہ سنکارا سے کیا جارہا ہے۔ دونوں نوجوان ملٹری افسر تھے اور دونوں نے امریکی اور فرانسیسی سامراج سے اعلان بغاوت کیا۔ تراورے نے فرانس کے فوجیوں کو بھی ملک سے نکال دیا ہے جبکہ خارجہ پالیسی میں وہ چین اور روس کے قریب ہورہا ہے۔ روس کے حالیہ دورے پر تراورے نے یہ کہہ کر داد حاصل کی کہ برکینا فاسو کو معدنیات اور عسکری شعبوں میں مدد کی ضرورت نہیں۔ صدیوں سے ان دو کاموں کے لئے مغرب ہمیں استعمال کرہا ہے۔ عوام کو تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں پائدار ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ چند ہفتے قبل تراوے پر قاتلانہ حملہ اور فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی جس کو ناکام بنادیا گیا لیکن اس واقعے نے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ کردیا۔
پاکستان کو بھی آج ایک ایسی سمت میں جانے کی ضرورت ہے جہاں پر وہ تعلیم، ٹیکنالوجی اور جدید سائنس سے مستفید ہوسکے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف زدہ معیشیت اور ڈالری جنگوں سے جان چھڑا کر developmentalism کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ ملکی دفاع اور سماجی ہم آہنگی ممکن ہوسکے۔ لیکن افسوس کے آج ہم الٹی سمت میں چل رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں معدنیات کے نام پر لوٹ مار، پنجاب میں کارپوریٹ فارمنگ کی تباہ کاریاں، اور سندھ میں چھ کینال اس طرف اشارہ یے کہ لوٹ مار اور مسلسل جنگ کے علاوہ کوئی پلان بی موجود نہیں۔ اور یہ سب کام برلن کانفرنس کے طرز پر ہورہا ہے جہاں پر مقامی آبادیوں سے پوچھا تک نہیں جارہا ہے۔ افریقہ سامراجی تسلط کو چیلینج کرکے علاقائی ہم آہنگی، اندرونی اصلاحات اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے ایک متبادل پیش کرہا ہے۔ پاکستان کے عوام کو ان تجربات کی روشنی میں اپنے مستقبل کا لائحہ عمل تشکیل کرنا ہوگا تاکہ معدنیات کی لوٹ مار اور ڈالری جنگوں کا راستہ روکا جاسکے۔
واپس کریں