دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سڈنی حملہ: پاکستان مخالف بھارت اسرائیل جھوٹ بے نقاب
No image آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والا ہولناک فائرنگ کا واقعہ، جس میں 16 افراد جان سے گئے نہ صرف انسانیت کے خلاف ایک سنگین اور افسوسناک جرم ہے بلکہ اس کے بعد شروع ہونے والی منظم جھوٹ، نفرت اور تعصب پر مبنی مہم بھی اتنی ہی قابلِ مذمت ہے۔ یہ سانحہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، قوم یا نسل نہیں ہوتی، مگر افسوس یہ ہے کہ ہر ایسے واقعے کے بعد کچھ مخصوص ریاستی اور میڈیا نیٹ ورکس فوری طور پر مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
واقعے کے فوراً بعد بھارتی اور اسرائیلی میڈیا کے بعض حلقوں اور ان سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے، سڈنی حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی مذموم مہم شروع کر دی۔ جعلی تصاویر، من گھڑت دعوے اور قیاس آرائیوں پر مبنی بیانیہ پھیلایا گیا، جس کا مقصد واضح طور پر پاکستان کو بدنام کرنا اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پراپیگنڈا خود ہی اپنے وزن تلے دب گیا اور حقائق پوری وضاحت کے ساتھ منظرِ عام پر آ گئے۔ انڈین اور اسرائیلی میڈیا کا جھوٹ بے نقاب ہو گیا آسٹریلوی اتھارٹیز کے مطابق حملے میں ملوث دہشت گردوں کے قریبی دوست اور مقامی ہمسایوں نے انکشاف کیا ہے کہ حملہ آور بھارتی نڑاد تھے۔ نوید اکرم کے والد کا تعلق بھارت سے تھا جبکہ اس کی والدہ اٹلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان تازہ انکشافات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف لگائے گئے الزامات سراسر جھوٹ پر مبنی تھے۔ اس صورتحال سے بھارت کی وہ گھبراہٹ بھی بے نقاب ہو گئی جس کے تحت بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو بدنام کرنے کی منظم کوشش کی گئی۔
آسٹریلوی پولیس اور حکام کے مطابق فائرنگ کے اس واقعے میں ملوث دو افراد باپ بیٹا تھے۔ حملے میں 50 سالہ ساجد اکرم ہلاک ہوا جبکہ 24 سالہ نوید اکرم زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے واضح طور پر اعلان کیا کہ دونوں افراد کے پاکستان سے تعلق کے کوئی شواہد موجود نہیں۔آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے اس واقعے کو واضح الفاظ میں دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور شدت پسند نظریات سے متاثر تھے، تاہم وہ کسی منظم بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ نہیں تھے۔ ان کے مطابق نوید اکرم کسی واچ لسٹ میں شامل نہیں تھا، اگرچہ 2019ء میں اسے محدود نگرانی میں رکھا گیا تھا مگر اس وقت اسے سنگین خطرہ تصور نہیں کیا گیا۔
اس افسوسناک واقعے کے دوران ایک ایسی حقیقت بھی سامنے آئی جسے نفرت اور تعصب پھیلانے والے عناصر نے جان بوجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ شامی نژاد مسلمان شہری احمد الاحمد نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے حملہ آور کو قابو میں کیا، اسلحہ چھینا اور درجنوں قیمتی جانیں بچائیں۔ احمد الاحمد کی یہ بہادری نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا میں سراہی جا رہی ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ نے خود ہسپتال جا کر ان کی عیادت کی، جبکہ مختلف عالمی رہنماؤں نے بھی ان کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔احمد الاحمد، جو دو بچوں کے والد اور سڈنی میں ایک سادہ سی پھلوں کی دکان چلاتے ہیں، آج انسانیت، جرأت اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک روشن علامت بن چکے ہیں۔ ان کے لیے عالمی سطح پر فنڈ ریزنگ مہم شروع کی گئی، جس میں لاکھوں آسٹریلین ڈالر جمع ہوئے، جبکہ معروف کاروباری شخصیات نے بھی انعامات اور مالی معاونت کا اعلان کیا۔
یہ واقعہ اس دہرے معیار کو بھی بے نقاب کرتا ہے جس کے تحت ایک مخصوص ذہنیت دہشت گردی کو فوری طور پر اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے، مگر جب حقیقت اس کے برعکس سامنے آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ دو سال قبل نیوزی لینڈ میں ایک غیر مسلم شدت پسند نے مسجد پر حملہ کر کے 49 مسلمانوں کو شہید کیا، مگر اس کے باوجود کسی نے عیسائیت یا مغربی معاشروں کو اجتماعی طور پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ المیہ یہ ہے کہ اگر کسی دہشت گردی کے واقعے میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو ایک خاص ذہنیت اسے پورے دین اور امت سے جوڑ دیتی ہے، جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور قابلِ مذمت طرزِ عمل ہے۔ اسی ذہنیت کے تحت بھارت اور اسرائیل بغیر کسی تحقیق کے ہر ایسے واقعے میں پاکستان کو ملوث قرار دینے میں دیر نہیں کرتے، جیسا کہ سڈنی واقعے کے فوری بعد بھی کیا گیا، مگر اب یہ حقیقت واضح اور ثابت ہو چکی ہے کہ یہ پراپیگنڈا محض ‘‘چور مچائے شور’’ کے مترادف تھا۔
سڈنی حملے کے بعد پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش دراصل ایک دانستہ حکمتِ عملی تھی، جس کا مقصد انتہا پسندی کے حقیقی اسباب، متاثرین کی مدد اور مسلمانوں کی پرامن شناخت سے توجہ ہٹانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے اور اس کے خلاف بھارت اور افغانستان میں سرگرم نیٹ ورکس کے شواہد عالمی سطح پر موجود ہیں۔دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ملک، مذہب یا قوم کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے تحفظ کی جنگ ہے۔ بغیر تحقیق الزامات، زہریلا پراپیگنڈا اور اسلاموفوبیا نہ صرف انصاف کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ یہ رحجانات عالمی امن کے لیے بھی شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ سڈنی کا سانحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جرم فرد کرتا ہے، قوم نہیں۔ دہشت گردی انسانیت کی دشمن ہے اور اس کے خلاف سچ، تحقیق، انصاف اور انسان دوستی ہی واحد مؤثر ہتھیار ہے۔
اس موقع پر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران احمد الاحمد کی بہادری کو سراہتے ہوئے انہیں قابلِ احترام اور انسانیت کا حقیقی ہیرو قرار دیا۔ ٹرمپ کے مطابق احمد الاحمد کے جرأت مندانہ اقدام نے کئی قیمتی جانیں بچائیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بہادری اور انسان دوستی کا تعلق کسی مذہب یا قوم سے نہیں ہوتا۔
عالمی سطح پر اب یہ بھی ضروری ہو چکا ہے کہ ایسے ممالک اور ریاستی بیانیوں کی بیخ کنی کی جائے جو اپنی دشمنی اور سیاسی مفادات کی خاطر بغیر کسی ثبوت کے کسی مذہب، قوم یا مسلمانوں کے خلاف جھوٹا اور زہریلا پراپیگنڈا پھیلاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری بھارت اور اسرائیل جیسے عناصر کو اس طرزِ عمل پر نکیل ڈالنے کی سنجیدہ کوشش کرے گی، یا سچ کو ایک بار پھر سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا؟بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں