دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیل کا جنگی جنون اور اقوامِ عالم کی بے حسی
No image اسرائیل کا جنگی جنون رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اسرائیلی کابینہ نے 2026ء کے بجٹ میں فوج کیلئے 35 بلین ڈالر مختص کر دیے ہیں، جو ابتدائی تجویز سے 25 فیصد زائد ہیں۔ کابینہ نے اس بھاری دفاعی بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر عالمی سطح پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے۔
یہ صورتحال عالمی اداروں کے کردار پر سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔ اقوام متحدہ معمولی تنازعات پر مختلف ممالک پر پابندیاں عائد کرنے میں تیزی دکھاتا ہے، لیکن اسرائیل کے واضح جنگی جرائم پر وہی ادارہ نہ پابندیاں لگا رہا ہے اور نہ ہی عالمی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنا پا رہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے احکامات تک موثر ثابت نہیں ہو سکے۔ یہ عالمی انصاف کے نظام کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔یہ امر بھی واضح ہے کہ صرف بیانات اور تشویش کا اظہار کافی نہیں۔اسرائیل کے خلاف اقدامات نہ اٹھانے والی طاقتوں کے لیے آئرلینڈ، نیدرلینڈز، سلووینیا اور سپین کا کردار ایک سبق ہونا چاہیے ان ممالک نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ سال ہونے والے میوزک مقابلے میں شرکت نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ اسرائیل کو مقابلے میں شامل رکھنے کے معاملے پر یورپی براڈکاسٹنگ یونین کے فیصلے کے فوراً بعد سامنے آیا۔مذکورہ ممالک نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اسرائیل کے جنگی جرائم اور انسانیت سوز بربریت کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کا کردار صرف اطلاعات پہنچانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے، نہ کہ طاقتور ممالک کے دباؤ کے آگے بے بس۔عالمی طاقتیں خاموش اور بے حس ہیں، جبکہ اقوام متحدہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ایسے میں عالمِ اسلام کو ایک فعال اور متحد مؤقف کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی مسلمانوں کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، جسے اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔غزہ، لبنان اور دیگر مقامات پر بہنے والا بے گناہ خون صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں رہا، یہ عالمی ضمیر کا امتحان ہیاور یہ امتحان اقوام متحدہ، عالمی عدالت اور مسلم دنیا تینوں کو دینا ہوگا۔
واپس کریں