نومبر ۲۰۲۵ لال قلعہ بم دھماکے کے بعد جموں و کشمیر میں کریک ڈاؤن۔تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ۔از: سردار ساجد محمود

نومبر ۲۰۲۵ لال قلعہ بم دھماکے کے بعد جموں و کشمیر میں کریک ڈاؤن، میڈیا و سوشل میڈیا پابندیاں ، تاجروں اور ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں، ہندوتوا پالیسی کے انسانی و سیاسی اثرات-
خلاصہ:10 نومبر 2025 کو دہلی کے تاریخی مقام لال قلعہ کے قریب ایک کار بم دھماکہ ہوا۔ پہلگام واقعہ اوراس حالیہ بم دھماکے کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں نے بڑے پیمانے پرکریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ جموں و کشمیر کے مختلف حلقوں، طبی شعبہ (ڈاکٹرز)، سوشل میڈیا ،صحافت (خصوصاً Kashmir Times)، شال بافی سے وابستہ تاجروں، اور عام مسلم آبادی ان کارروائیوں کا شکار ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اظہارِ رائے، پریس فریڈم اور بنیادی شہری حقوق پر سنگین خدشات اور سوال اٹھ رہے ہیں۔ بینالاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقامی قائدین نے شفاف تفتیش، قانونی عمل کی بالا دستی اور بلاجواز مشکوک بنیادوں پر گرفتاریوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
1. واقعہ: لال قلعہ بم دھماکہ — مختصر حقائق
10 نومبر 2025 کو لال قلعہ کے قریب ایک کار میں دھماکہ ہوا، جس میں متعدد ہلاک و زخمی ہوئے؛ بھارتی تفتیشی اداروں نے اسے دہشت گردی قرار دیا اور این آئی اے کو کیس کی تفتیش سونپی گیی۔ تفتیش کے ابتدائی مراحل میں مختلف افراد، جن میں کئی ایک طبی پیشہ ماہر ڈاکٹر صاحبان کو شامل کرتے ہوے گرفتار کیا گیا۔
2. تفتیش کا خاکہ، مقدمات اور دعوے
مرکزی ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ دھماکے میں ایک منظم نیٹ ورک شامل ہے جس نے پیشہ ور افراد (ڈاکٹرز) وغیرہ کو رابطہ کار کے طور پر استعمال کیاہے۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق این آئی اے/پولیس نے متعدد مقامات سے دھماکہ خیز مواد، اسلحہ اور مواصلاتی آلات بھی برآمد کیے ہیں۔ • گرفتار کیے گئے افراد کے اہلِ خانہ نے ان کے بارے میں بے گناہی کے دعوے کیے ہیں جبکہ حکومت اس مؤقف پر قائم ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور شواہد عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔ [1][26] تاہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں حکومتی دعوؤں اور موقف پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔
تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے اور متعدد بیانات/تفصیلات تحقیقات کی پیش رفت کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہیں۔
3. جموں و کشمیر میں کریک ڈاؤن عمل، دائرۂ کار اور روزمرّہ زندگی پر اثرات۔
دھماکے کے بعد وادی میں سکیورٹی اور پولیس آپریشنز میں بھرپور شدت آئی ہے۔ متعدد علاقوں میں چھاپے، چیک پوسٹوں پرپوچھگچھ کے سنگین واقعات رپورٹ ہوئے۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق شناختی پریڈ اور بے گناہ افراد کی گرفتاریوں جیسے اقدامات سےخوف وہراس کے سبب روزمرّہ زندگی، کاروبار اور طبی خدمات بری طرح متاثر ہوئیں۔
انسانی حقوق مبصرین نے اس ضمن میں خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے آپریشنز اجتماعی سزاجیسی صورتحال کی نشان دہی کرتے ہیں جہاں عام شہری بشمول معصوم افراد سیکیورٹی کے نام پر متاثر ہوتے ہیں۔
4. خصوصی ہدف: ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں
تفتیش کے دوران ڈاکٹروں کی گرفتاریاں اور تفتیشی نوٹس جاری کیے گئے۔ نیشنل میڈیکل کمیشن یا متعلقہ رجسٹری کے حوالے سے رپورٹس میں بعض طبی پیشہ وروں کی رجسٹریشن معطل کیے جانے کی خبریں بھی موصول ہوئی جس سے طبی برادری میں تشویشناک صورتحال نے جنم لیا ہے۔
طبی شعبے کی نمائندہ تنظیموں نے اس قسم کی گرفتاریوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ اقدامات صحت عامہ کے لیے منفی اور خطرناک نتائج کے حامل ہونگے۔
5. خصوصی ہدف: تاجروں باالخصوص شال بافی سے وابستہ کاروباری شخصیات کو نشانہ بنانے کے اقدامات۔
شال تاجروں کے خلاف شناختی پریڈ اور ہراسگی کے واقعات کے پچھلے سالوں کے ریکارڈ کے پیشِ منظر میں نومبر 2025 کے کریک ڈاؤن میں بھی ایسے تاجروں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان واقعات نے ریاست جموں وکشمیر کی روایتی صنعتوں (پشمینہ/شال) کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
مقامی تاجروں اور دستکاریوں سے منسلک افراد نے بتایا ہے کہ بے جا چیکنگ، حراستوں اور تعصب کے باعث اکثر مقامات پر تجارت بری طرح متاثر ہوئی۔
6. میڈیا پر دباؤ، سوشل میڈیا کنٹرول اور Kashmir Times پر دباو۔
مزکورہ بم دھماکہ واقعےکے بعد آن لائن نگرانی، سوشل میڈیا پوسٹس کی جانچ پڑتال اور بعض اکاؤنٹس کی بندش کی رپورٹیں بھی سامنے آئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ سوشل میڈیا پابندیوں کا استعمال اظہارِ رائے کو متاثر کرتا ہے، خاص طور پر جب وہ منظم اور وسیع پیمانے پر ہوں۔
۲۰ نومبر ۲۰۲۵ کو جموں میں Kashmir Times کے دفتر پر سپیشل انویسٹیگیشن پولیس نے چھاپہ مارا اور ڈیجیٹل آلات ضبط کیے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) اور Reporters Without Borders (RSF)
جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کی اس کارروائی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو پریس فریڈم کے خلاف قرار دیا ہے۔ Kashmir Times اور ایڈیٹر نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی آزاد صحافت کو دبانے کی مذموم کوشش ہے۔
صحافتی تنظیموں نے یہ مطالبہ کیا ہےکہ ضبط شدہ مواد کی غیر جانبدارانہ جانچ پڑتال ہونی چاہیے اور صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
7. مقامی سیاسی ردِعمل: عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، حریت رہنماؤں کا نقطہ نظر ۔
عمر عبداللہ نے حالیہ واقعہ اور بھارتی اقدامات اور عوامی رد عمل کے تناظر میں کہا ہے کہ “ہر ایک کشمیری دہشت گرد نہیں، شفاف تحقیقات اور قانونی و مثبت روّیہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرد واحد کے جرم کی سزا کل کو دیے جانے کے بیانیے اور عملی اقدامات سے اجتناب ضروری ہے۔
محبوبہ مفتی اور دیگر مقامی سٹیک ہولڈرز نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ پالیسی میں تبدیلی، مکالمہ اور عدالتی عمل میں شفافیت جیسے اقدامات کرے تاکہ ناراضگی اور انتہاپسندی کے امکانات میں کمی ہوسکے۔
حریت رہنماؤں اور کشمیری تنظیموں نے کریک ڈاؤن کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی مانیٹرنگ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے۔
مذہبی و سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ان اقدامات پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسے “اجتماعی سزا (collective punishment)” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شال فروشوں پر یہ حملے کشمیر وادی میں جاری گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کے تسلسل کا حصہ ہیں، اور یہ کشمیر کی شناخت اور کاروباری برادری کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔
8. متاثرین اور گواہوں کے تاثرات:
مقامی تاجر کا کہنا تھا کہ پولیس روزانہ ہمیں پکڑتی ہے، شناختی پریڈ کی جاتی ہے۔ بچوں کا سکول جانا دشوار ہو چکا ہے۔
شال فروش تاجر نے کہا کہ میری دکان میں تلاشی کے بعد سامان تباہ کر دیاگیا اور ہمیں کئی گھنٹوں تک تھانے میں حبس بے جا میں رکھا گیا۔
ڈاکٹروں / طبی پیشہ وران کے بیانات میں اضافی مواد شامل کیا ہے، تاکہ رپورٹ مزید گہرائی اور احساساتی تنوع اختیار کرے۔ نیچے وہ اضافے ہیں، اور ساتھ ہی ان کے حوالہ جات درج کیے گئے ہیں۔اضافی مواد برائے شال-بافی سے منسلک متاثرین اور طبی پیشہ وران شال-بافی سے منسلک متاثرین کے بیانات (مزید اضافہ)
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (JKSA) کے کنوینیئر ناصر خیومی نے واضح کیا ہے کہ شال بیچنے والوں کو نہ صرف تشدد کا سامنا ہے بلکہ انہیں ان کے بیگ چیک کرنے، شناختی پابندیوں اور حرکت کی پابندیوں کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی پولیس اور پنچایتی انتظامیہ کی جانب سے بغیر وجہ حملے اور تفتیش کا سامنا ہے، جو ان کی معیشت اور عزت دونوں کو متاثر کر رہا ہے۔
شال فروش شبیر احمد ڈار نے ایک ویڈیو میں کہا کہ وہ اور دیگر تاجر برسوں تک مسوری (Uttarakhand) میں کام کرتے رہے، اور وہ وہاں کی مقامی کمیونٹی کو جانتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں شناختی دستاویزات دکھانے پر بھی ان کی عزت کو پامال کیا گیا اور انھیں واپس کشمیر جانے پر مجبور کیا گیا۔
فری پریس کشمیر کی رپورٹ کے مطابق، شال فروش دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں بغیر نوٹس کے بے دخلی کا سامنا ہے اور انہیں مشکوک قرار دے کر سامان کی بے جا تلاشی لی جاتی ہے۔ انہیں اسطرح ٹریٹ کیا جاتا ہے جیسے انکے پاس شالوں کے بجاے ہتھیار یا دھماکہ خیز مواد ہو۔ اس عمل سے ان کی روزی روٹی شدید متاثر ہوئی ہے اور وہ خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کی کاروباری سرگرمیاں محدود یا ختم کردی جائیں گی۔
ThePrint کی رپورٹ کے مطابق، دو شال فروشوں کو معسوری میں مارا گیا اور انہیں اپنا اسٹال بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان میں سے بعض نے بتایا کہ انہوں نے اپنا شناختی کارڈ پیش کیا مگر پھر بھی ان پر تشدد کیا گیا اور پولیس کے رویے نے ان کے لیے یہ واضح کیا کہ انہیں کسی بھی صورت نہیں چھوڑا جاے گا ۔
مقامی دستکار اور شال کاریگر فرخ احمد میر (Padma Shri ایوارڈی) اور ان جیسے دیگر کاریگروں کے تاثرات کے مطابق دستکاری اور شال بافی صنعت کو “مشکوک شناختی” تناظر میں بری طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے کاروباری برادری خوفزدہ ہے کہ مسلسل تعصب، تفتیش اور پروفائلنگ ان کی ثقافتی میراث کو کمزور کر دے گی۔
جموں و کشمیر کی چند بڑی طبی تنظیموں میڈیکل فیکلٹی ایسوسی ایشن (MFA), (گورنمنٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، سری نگر)، (کونسلٹنٹ ڈاکٹرز)، اور DAK (ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر) نے مشترکہ طور دلی دھماکہ کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک “بغیر کسی تہذیب کے عمل” ہے اور اگر طبی پیشہ واران اس میں ملوث ہیں تو یہ اخلاقیات اور شعبہ طب کی سنگین توہین ہوگی ۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جمّوں (DAJ) نے پریس ریلیز میں کہا کہ اس دھماکے سے طبی پیشے کو شدید دھچکا لگا ہے، اور رپورٹ شدہ ڈاکٹر ملوث ہونے کے خدشات کو “ہپوکریٹک عہدے کی خیانت” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی بچانے والے کردار کو تشدد کے ساتھ منسلک کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے صاف اور شفاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
DAK کے صدر ڈاکٹر محمد یوسف ٹک نے کہا ہے کہ “کوئی نظریہ یا تکلیف کسی بھی صورت معصوم زندگیاں ختم کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی”۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ڈاکٹروں کا کردار زندگی کی قدر کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کی تباہی۔
کونسلٹنٹ ڈاکٹروں کی تنظیم کے صدر ڈاکٹر اویس ایچ دار نے بیان دیا کہ اگر طبی پیشہ کے لوگ واقعی ملوث ہیں تو یہ انسانی ہمدردی اور پیشہ ور اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
J&K میڈیکل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (JKMSA) کا نے کہا ہے کہ ڈاکٹرز او طبی طلبہ کی پروفائلنگ اور شک کے دائرے میں لانا “ایک بنیادی اخلاقی اور طبی اصول کی خلاف ورزی” ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ جو لوگ زندگی بچانے کی تربیت لیتے ہیں، انہیں دہشت گردی جیسے الزامات کی بنیاد پر زندگی کے مخالف کردار کے ساتھ جوڑنا انہیں ان کی پیشہ ورانہ شناخت سے منقطع کرنا ہے۔
PDP کی رہنما التجا مفتی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر کے خود کو دھماکہ آور بنانے کا بیانیہ انتہائی تشویشناک ہے اور یہ کشمیری معاشرے میں ایک خطرناک نفسیاتی اور شناختی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “کشمیر ایک تباہ کن چکر میں پھنس گیا ہے”۔ کشمیر ٹائمز کے عملے کےمطابق ہمارے لیپ ٹاپ اور ریکارڈ ضبط کر لیا گیا اور ہمیں سمجھ نہیں آتی ہم نے کیا جرم کیا اور کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔
9۔ بین الاقوامی اداروں، این جی اوز اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کا نقطہ نظر:
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2024–25 میں کشمیر کی پالیسیوں پر متعدد بارانتباہی بیانات دیے اور مطالبہ کیا کہ سیکیورٹی کے نام پر شہری اور انسانی حقوق کو پامال نہ کیاجائے۔ نومبر 2025 کے دوران بھی ایمنسٹی نے انسانی حقوق کی نگرانی کی ضرورت پر زور دیا (11)۔
ہیومن رائٹس ایشیا واچ نے طویل عرصہ سے کشمیر میں گرفتاریوں، پریس پر دباؤ اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے خلاف رپورٹیں شائع کی ہیں اور موجودہ کریک ڈاؤن کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
اقوامِ متحدہ (UN) کے ماہرین نے اپنے بیان میں پہلگام واقعہ کے بعد گزشتہ برسوں میں کشمیر کی انسانی حقوق صورتِ حال پر غور کیا اور مداخلت و نگرانی کے امکانات کو رکھا۔
سی جے پی CPJ، RSF اور دی صحافت حقوق گروپس نے Kashmir Times کے خلاف کارروائیوں کو پریس فریڈم کے خلاف سنگین اقدام قرار دیا اور بین الاقوامی اداروں سےنوٹس لینے کی اپیل کی۔
10. ہندوتوا پالیسی اور جموں و کشمیر کا مستقبل:مودی حکومت کی حکمتِ عملی اور اقدامات میں ہندوتوا کا بیانیہ واضح طور پر شامل ہے۔ سکیورٹی فورسز میں اضافہ، شناختی تبدیلی اور وفاقی بالا دستی کی کوششیں جموں و کشمیر جیسے حساس خطہ میں دور رس اثرات کی حامل ثابت ہونگی ۔ سیاسی بد اعتمادی، نوجوانوں میں ردِ عمل، علیحدگی پسندانہ رجحانات میں ممکنہ اضافہ ایسے حقائق ہیں کہ بین الاقوامی دباؤ کے باعث جن کا بھارت کی داخلی و خارجی پالیسی پر اثر انداز ہونا یقینی ہے۔
بالا اقتباس اور مودی حکومت کے ہندوتوا نظریے پر مبنی اقدامات کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب نا صرف کل جماعتی حریت کانفرنس بلکہ مین سٹریم لائن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی وقتی مفاد کے لیے بھارت کے ساتھ قایم کیے گئے گٹھ جوڑ کو ختم کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ حالیہ واقعات اور بھارتی اقدامات کے تسلسل میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ کی طرف سے یہ کہنا کہ کشمیری شناخت کے ساتھ انکی زات کی حد تک بھی دہلی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر دشوار ہو چکا، وہاں عام کشمیریوں کا کیا حال ہو سکتا۔
11. نتیجہ
لال قلعہ دھماکے جیسے سنگین واقعہ کی شفاف اور موثر تفتیش ناگزیر ہےتاہم بھارتی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے ردِ عمل میں جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے کچھ بھی نیا نہیں۔ ماضی کے فالس فلیگ آپریشنز کی طرز پر حالیہ دھماکہ کے بعد بھی بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا، پیشہ ور طبقات اور روایتی تاجروں کو تفتیش کے دائرے میں لا کر زد و کوب اور بے گناہ افراد کو ہراساں کیا گیا۔آزاد میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا اور سوشل میڈیا پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔ بھارت کے یہ اقدامات انسانی حقوق کی پامالی ، آزادیٔ اظہار پر پابندی اور معاشی و معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی کے لیے بہت بڑے خطرے کا سبب ہیں۔ بھارت کے ان اقدامات کی بین الااقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الااقوامی صحافتی تنظیموں نے بھی بھرپور مزمت کی ہے۔ بین الاقوامی معیارات کے مطابق، سیکیورٹی کی ضروریات کو حقوقِ شہری اور قانونی شفافیت کے زاویوں کے ساتھ متوازن کرنا لازمی عمل ہے مگر بھارت جموں و کشمیر کے معاملہ میں مزکورہ میعار پر پورا نہیں اترتا جو بین الااقوامی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
12. سفارشات:
1. صاف اور شفاف تحقیقات کے لیے بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور متعلقہ ادارے گرفتاریوں، ضبطگیوں اور شواہد کی تفصیلات عدالتی فورمز میں شائع کریں اور عدالتوں تک وکلا کی رسائی کو فوری بنیادوں پر یقینی بنایا جائے۔
2. پریس کی ازادی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ کشمیر ٹائمز
کی ضبط شدہ اشیاء اور دستاویزات کا غیرجانبدار بین الااقوامی مبصرین کی موجودگی میں جائزہ لیا جائے اور ازادی صحافت کو دبانے والی کسی بھی کارروائی پر قدغن لگائی جائے۔
3. سوشل میڈیا اور آن لائن پابندیاں محدود ہونی چاہئیں اور طبی و ایمرجنسی معلومات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
4. شال-تاجروں اور روایتی صنعتوں کے خلاف غیرضروری پروفائلنگ بند کی جائےاور متاثرین کو معاضہ/قانونی مدد فراہم کی جائے۔
5. اقوامِ متحدہ اور مستند انسانی حقوق کے اداروں اور بین الااقوامی میڈیا کو آزاد رسائی دی جائے تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقاتی عمل ممکن ہوسکے ۔
واپس کریں