اللہ داد صدیقی
قاضی کی مسند سے
آج کل جو بھی ملتا ہے
وہ انصاف نہیں،
بلکہ صرف ایک دھندلا سایہ ہے
جو نام و نشان کے درمیان
چپ چاپ گھومتا رہتا ہے۔
مراعات سے لَدے ہوئے لہجے،
منصب سے مزین انداز
پھر بھی زبان پر
ہل مِن مزید کا
اک نہ ختم ہونے والا
گلہ ملتا ہے۔
نئے دور کے قاضی
دلائل نہیں دیکھتے؛
چہرے دیکھتے ہیں۔
توانائی نہیں تولتے؛
تعلقات تولتے ہیں۔
ان کے فیصلوں میں
کتاب کم بولتی ہے،
اشارہ زیادہ بولتا ہے۔
قانون کی میز پر
سچ بیٹھتا تھا پہلے
اب ’’ہدایات‘‘ بیٹھتی ہیں۔
گواہ بولتے تھے،
اب خاموشیاں
حکم کی گواہ ٹھہرتی ہیں۔
عدالت کی روشنی
کبھی انصاف کا آئینہ دار تھی
آج کل
وہی روشنی
حق کے زخم
اور بھی نمایاں کر دیتی ہے۔
قلم جب چلتا ہے
تو لگتا ہے
کاغذ نہیں،
کسی خواہش کا
بھاری سایہ
جھک رہا ہے۔
پرانی مسند
اب بھی وقار سے رکھی ہے
مگر اس پر بیٹھنے والے
وقار کے وارث کم،
مصلحت کے نمائندے زیادہ ہیں۔
ان کے لہجے سے
انصاف کم
اور اختیار کی پرچھائیاں زیادہ بولتی ہیں۔
فیصلے…؟
وہ ضرورت کے تابع ہیں
سچ، جھوٹ، اصول، عدل…
سب پیچھے کھڑے
اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں؛
مگر باری کبھی آتی نہیں۔
کئی بار یوں لگتا ہے
عدالت کا دروازہ کھلتا ہے
مگر حق کے راستے
اندر ہی کہیں بند پڑے ہوتے ہیں۔
صدائیں گونجتی ضرور ہیں،
مگر پہنچتی کہیں نہیں۔
قاضی کی مسند سے
آج جو ملتا ہے—
وہ فیصلہ نہیں،
فیصلے کی دھول ہے،
جو آنکھ میں اتر کر
دیر تک چبھتی ہے۔
دل چاہتا ہے
کوئی ایک حکم
سچ کی آنکھوں میں دیکھ کر
سنا دیا جائے۔
مگر امید، وہ پرانی امید،
جس نے صدیوں سے دل جلا کر رکھا ہے
اب بھی زندہ ہے،
چپکے سے، خاموشی میں
ہر عدالت کے کونے میں
انصاف کا چراغ جلائے رکھتی ہے۔
سچائی کی راہوں پر
یہ روشنی کبھی مدھم نہیں پڑتی،
یہ شعاعیں
ظلمت کے پردوں کو چیر کر
ہر دل میں اترتی ہیں۔
اور جو قدم اٹھائے،
وہی بلند ہوتا ہے
جو انصاف کے لیے،
وفاداری کے لیے
اپنے وجود کو قربان کر دے۔
آخر میں…
میں دیکھتا ہوں وہ دن
جب ہر قاضی
فیصلے کے حقیقی وارث ہوں گے،
ہر دستاویز میں
حق کی خوشبو ہوگی،
اور مراعات کی دھند
کبھی سرحد پار نہ کر سکے گی۔
تب سماجی انصاف
صرف ایک خواب نہیں،
بلکہ ایک حقیقت ہوگی
چمکتا ہوا ستارہ،
جس کی روشنی
اندھیروں کو بھی روشنی میں بدل دے گی،
اور ہر دل
امن اور یقین کے ساتھ
اپنی منزل پا لے گا۔
واپس کریں