محمد ریاض ایڈووکیٹ
وفاقی حکومت کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی تمام مساجد میں اذان اور باجماعت نماز کے لئے یکساں اوقات کار کے نظام کو متعارف کروانے کا فیصلہ ہوا ہے۔اسکے علاوہ جمعہ کے خطبات کے لیے موضوعات کی ایک فہرست بھی طے کی جارہی ہے۔ مذکورہ خطبات اتحادِ امت، اصلاحِ معاشرہ اور نوجوانوں کی رہنمائی جیسے اہم عنوانات پر مبنی ہوں گے۔ مزید برآں، مساجد کے نظم و نسق، سیکیورٹی اور انتظامات کے لیے بھی مشترکہ سفارشات تشکیل دی جائیں گی جن پر عمل درآمد کی نگرانی وزارتِ مذہبی امور کرے گی۔ اس سلسلہ میں ”نظامِ صلوٰۃ“ کو مؤثر بنانے کے لیے قانون سازی بھی زیرِ غور ہے۔
یہ خبریں نئی ضرور ہیں مگر کوشش نئی نہیں۔ حکومت ماضی میں بھی یکساں اذان و نماز کے اوقات کے نفاذ کی کوشش کرچکی ہے۔ 2015 میں مختلف مکاتبِ فکراہلِ تشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث کے علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ”نظامِ صلوٰۃ“ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ تاہم مذہبی حلقوں کے شدید ردعمل کے باعث یہ منصوبہ مؤخر کردیا گیا۔ بعدازاں 2018 میں ”یونیفائیڈ ٹائمنگ آف اذان اینڈ نماز ایکٹ“ کا مسودہ بھی تیار ہوا مگر اختلافات کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس پس منظر کے بعد 2025 میں یہی سوال دوبارہ زندہ ہوگیا کہ کیا یہ کوشش اس بار کامیاب ہوسکے گی؟
ہمارے معاشرے کی ساخت اور مذہبی تنوع کو سامنے رکھیں تو کئی عملی سوالات جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کی اکثریت اہلِ سنت والجماعت حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے، مگر خود حنفی مکتب بھی دو بڑے گروہ بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہے۔ ان دونوں کی کئی مساجد کے اذان اورباجماعت نماز کے اوقات میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث کے اوقاتِ نماز حنفی مسلک سے خاصے مختلف ہیں۔ اسی طرح اہلِ تشیع کا نظامِ وقت سب سے منفرد ہے۔ ایسے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ یکسانیت کون سے مسلک کے وقت کے مطابق قائم ہوگی؟ کیا ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مسلک کے اوقات کی پیروی پر آمادہ ہوسکیں گے؟ اس کا جواب بظاہر نفی میں ہی دکھائی دیتا ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تقاریر اور نشستیں ضرور مؤثر ہوسکتی ہیں، مگر عملی میدان میں مسالک کے اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ انہیں ایک صف میں کھڑا کرنا آسان نہیں۔ایسی فضا میں ایسا کوئی بھی منصوبہ جس میں ”مرکزی نظام“ کا تاثر ہو، فطری طور پر اختلافات کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔ اور یہی کچھ رواں بحث میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ مذہبی حلقوں کے ایک بڑے حصے نے یکساں اوقاتِ اذان و نماز کے حکومتی اقدام پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ حلقے اسے ریاست کی جانب سے مذہبی امور پر غیر ضروری کنٹرول کی طرف قدم سمجھ رہے ہیں اور اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مستقبل میں احتجاجی تحریکیں سامنے آسکتی ہیں۔ ان خدشات کو یکسر رد بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مذہبی معاملات میں عوام کی حساسیت ہمیشہ بہت زیادہ رہی ہے، اور پاکستان جیسے مذہبی جذبات رکھنے والے معاشرے میں چھوٹی سی چنگاری بھی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
اس کے برعکس، کچھ حلقے حکومت کے اس اقدام کا خیرمقدم کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یکساں اذان و نماز نہ صرف شہری نظم میں بہتری لا سکتی ہے بلکہ مسالک کے درمیان موجود فاصلے کم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ خصوصاً جمعے کے خطبات کے لیے منتخب موضوعات طے کرنے کی تجویز کو مثبت انداز میں دیکھا جارہا ہے، کیونکہ اس سے فرقہ واریت کے رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور معاشرتی اخلاقیات، وحدتِ امت اور اجتماعی فلاح جیسے موضوعات کو زیادہ مؤثر انداز میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت بھی اور منفی بھی۔ اگرچہ حکومت کی نیت پر اعتراض یا تنقید کی گنجائش موجود ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہ منصوبہ پوری حکمت سے نافذ ہوجائے تو اس کے فوائد بہت نمایاں ہوسکتے ہیں۔ شہری سطح پر نظم میں بہتری، عبادات میں یکسانیت، مساجد کے انتظام میں مربوطی اور خطباتِ جمعہ کی اصلاح، یہ سب ایسے اہداف ہیں جو مجموعی طور پر معاشرتی استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔
لیکن سوال پھر وہی ہے: کیا یہ سب کچھ عملی طور پر ممکن بھی ہے؟ زمینی حقائق اور گزشتہ تجربات کو دیکھتے ہوئے کہنا مشکل ہے کہ 2015 اور 2018 کی ناکامی 2025 میں کامیابی میں بدل جائے۔ پاکستان کے مذہبی تنوع، فقہی اختلافات اور عوامی حساسیت کو سامنے رکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی یکساں پالیسی کا نافذ ہونا نہ صرف دشوار بلکہ شاید ناممکن ہے۔
تاہم ایک اصولی بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اگر ریاست کسی کام پر سنجیدگی سے کمر بستہ ہوجائے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ دیر تک نہیں ٹھہر سکتی۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اقدامات عوام اور مذہبی طبقات کے اتفاقِ رائے سے کیے جائیں، تاکہ اختلافات کے بجائے ہم آہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس نظام کے فوائد کی بابت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر آگاہی پروگرامزکا اجرا کرے۔
یکساں اوقاتِ اذان و نماز کا تصور بظاہر ایک خوبصورت مقصد رکھتا ہے، مگر اس کی عملی شکل میں وہی چیلنجز موجود ہیں جو گزشتہ برسوں میں ہر بار اس منصوبے کو روک دیتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل قریب میں بھی اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔
واپس کریں