دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میرے بچپن کے دوست
اللہ داد صدیقی
اللہ داد صدیقی
کیا حسین دور تھا وہ،
حالات کی فکر سے دور—
معصوم سی شرارتیں،
لحظہ لحظہ زندگی کی حرارتیں۔
وہ صحن میں کھیلے جانے والے
لکن میٹی کے کھیل،
وہ چوری چوری پھل توڑ کر
درختوں کی شاخوں میں
چھپ جانا،
وہ بے وجہ بھاگتے رہنا
جیسے ہوا نے
قدموں کو پنکھ لگا دیے ہوں۔
وہ شامیں—
جب سورج ڈھلتے ہی
گھر بلایا جاتا تھا،
اور ہم بہانے بنا کر
دو منٹ اور رکنے کی
التجا کرتے تھے۔
ہمیں کیا خبر تھی
کہ زندگی میں
ایسے لمحے بھی آئیں گے
جنہیں ہم
دو پل بھی
دوبارہ کبھی نہ پا سکیں گے۔
یاد ہے؟
بارش کے بعد
گلیوں میں بہتے پانی کے ریلے میں
ہم کاغذ کی کشتیاں
بہاتے تھے،
اور ہارنے والی کشتی پر
اپنی ہنسی قربان کر دیتے تھے،
جیسے دنیا میں
اس سے بڑی شکست کوئی نہ ہو۔
دوپہریں تو یوں لگتی تھیں
جیسے وقت تھم گیا ہو:
وہ کچے گھروندے،
اور مٹی کی مہک میں
زندگی کی ساری دولت
ہماری مٹھی میں تھی۔
پھر آہستہ آہستہ
زندگی کے موڑ بدلتے گئے—
تعلیم کی راہیں الگ ہوئیں،
خاندان پھیلتے گئے،
ذمہ داریاں
گھٹنوں سے لپٹ کر
ہمیں جوانی کے بنجر میدانوں میں
دھکیلتی چلی گئیں۔
مگر دل کے اندر
ایک چھوٹا سا کمرہ اب بھی ہے
جس پر لکھا ہے:
“دوستوں کا بچپن”
"بچپن کے دوست"
اور وہاں
اب بھی دھول سے لتھڑی گیند ہے،
ایک ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی کار ہے،
اور وہ سِیٹی
جو ہم ہر کھیل کی ابتدا میں بجاتے تھے۔
اے میرے بچپن کے دوستو!
وقت نے شاید
ہماری صورتیں بدل دی ہوں،
قدموں کو سنبھال دیا ہو،
آنکھوں کے نیچے
تھکن کی لکیریں بھی کھینچ دی ہوں—
مگر یقین کرو،
ہماری ہنسی آج بھی
اتنی ہی بے ساختہ ہے
جتنی اُس وقت
جب ہم بے فکری کا
تالا کھول کر
دنیا کی گلیوں میں
ننگے پاؤں دوڑتے تھے۔
اگر کبھی
وہی راستے، وہی شامیں
واپس آ جائیں…
تو ہم پھر وہی بچّے بن جائیں گے
جنہیں زندگی کے سود و زیاں سے
کوئی سروکار نہیں تھا،
جو دوستی کے ایک اشارے پر
دنیا لٹا دینے پر آمادہ رہتے تھے،
جو ہر رنج کو
ہنسی کے ایک قطرے میں
ڈبو دیتے تھے۔
اے میرے سنگِ سفر!
تم جہاں بھی ہو،
خوش رہو، مسکراتے رہو—
کیونکہ میری یادوں کی بستی میں
تمھارے چہرے
اب بھی وہی
بچپن کی روشنی لیے
دمکتے رہتے ہیں۔
واپس کریں