مقبوضہ کشمیر میں جائیدادوں کی ضبطی، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی

سردار ساجد محمود ۔حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کوشاں سیاسی و سماجی باالخصوص حریت رہنماؤں اور تحریک حریت سے وابستہ عوام کی ذاتی جائیدادوں کو ضبط کرنا مقبوضہ جموں وکشمیر میں معمول بن چکا ہے جوایک واضح اور سنگین انتقامی کارروائی ہے۔ بھارتی بیانیے کے برعکس یہ صرف ایک اقتصادی یا انتظامی اقدام نہیں بلکہ اس کا تعلق براے راست بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی اختلافات کے تناظر میں قابض ملک کی غیر قانونی مداخلت کاری سے ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات اور قوانین کے تناظر میں یہ اقدام کئی نقطہ نظر سے غیر قانونی اور غیر شفاف ہے۔
بین الاقوامی معاہدہ ICCPR (International Covenant on Civil and Political Rights) انسانی حقوق کے فریم ورک میں ایک اہم ستون ہے۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 14 میں تمام افراد کومنصفانہ عدالتی عمل کی بذیل الفاظ میں ضمانت دی گئی ہے:
“All persons … shall be entitled to a fair and public hearing by a competent, independent and impartial tribunal established by law.”
آرٹیکل 14(1).
اس شق کے مطابق، متاثرین کو قانونی کارروائی کے دوران ایک آزاد اور غیر جانبدار عدالت تک رسائی ملنی چاہیے تھی، جہاں ان کے خلاف الزامات کا تفصیلی اور شفاف انداز میں جائزہ لیا جائے، اور انہیں خود اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جائے۔ جائیدادوں کی کوئی ضبطی اگر منصفانہ سماعت کے بغیر ہو تو وہ ICCPR کی اس ضمانت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
مزید برآں، ICCPR کا آرٹیکل 17 واضح طور پر نجی زندگی، گھر اور املاک کے تحفظ کا حق فراہم کرتا ہے:
“1. No one shall be subjected to arbitrary or unlawful interference with his privacy, family, home or correspondence, nor to unlawful attacks on his honour and reputation.
2. Everyone has the right to the protection of the law against such interference or attacks.”
(آرٹیکل 17) ۔
اس شق کے مطابق ریاست کسی بھی فرد کے گھر یا اثاثوں میں “arbitrary” (من مانی) مداخلت نہیں کر سکتی اور اگر اس طرح کی مداخلت ہو تو متاثرہ فرد کو قانونی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر میں بلا قانونی جواز، بلا عدالتی عمل ، سیاسی مخالفت کی بنیادوں اور حق خود ارادیت کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیےضبطی جیسے اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں جو بالواسطہ طور قانون کی حکمرانی کے خلاف اور متاثرین کی ذاتی و نجی زندگی میں غیر قانونی دخل اندازی ہے۔
اس تناظر میں اقوامِ متحدہ کے Declaration on Human Rights Defenders (قرارداد A/RES/53/144) کے مطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ بالا قرارداد کی روشنی میں ایسے افراد کو خاص تحفظ حاصل ہے جو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کےفروغ اور ان کے تحفظ کے لیے کوشاں ہوں، چاہے وہ انفرادی ہوں یا گروہی سطح پر۔ اس Declaration کے آرٹیکل 12(2) میں یہ واضح ہے کہ ریاست پر ایسے افراد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات لازم ہوتے ہیں ۔
“The State shall take all necessary measures … against any … retaliation, … adverse discrimination, pressure or any other arbitrary action as a consequence of his or her legitimate exercise of the rights referred to in the present Declaration.”
(UN Declaration on Human Rights Defenders, A/RES/53/144, Article 12(2)۔
اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی سے وابسطہ افراد کی جائیدادوں کی ضبطی متاثرین کی طرف سےقانونی اور پُرامن انسانی حقوق اور سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں کی گئی ہے، اس طرح بھارتی اقدامات مزکورہ شق کی ریاست پر لازم ذمہ داری کی واضح خلاف ورزی ہے۔
تحقیقی لحاظ سے، بھارت کا یہ عمل تین بنیادی طریقوں سے انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے:
1.انتقامی نوعیت (Retaliation): ضبطی ایک سیاسی کردار یا موقف رکھنے کے جرم کی پاداش معلوم ہوتی ہے، نہ کہ کسی قانونی جرم کی بنیاد پر کی گئی شفاف اور جائز کارروائی ہے۔
2.شفافیت اور شنوائی کا فقدان: متاثرین کو منصفانہ اور آزادانہ عدالتی عمل سے محروم رکھا گیا ہے، جو ICCPR کے آرٹیکل 14 کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور انسانی حقوق کا سنگین مسلہ ہے۔
3.نجی جائیدادوں اور املاک پر ظالمانہ مداخلت: ذاتی جائیدادوں پر ضبطی جب عوامی مفاد کا جواز پیش نہ کیا جاسکے یا یہ واضح نہ ہو کہ اس سے سماجی بہتری ہوگی، تو یہ ICCPR کی آرٹیکل 17 کے تحت ممنوع “arbitrary interference” ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں مزکورہ بالا آرٹیکل کی سرعام خلاف ورزیاں بین الااقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کسی انتباہ سے کم نہیں ۔
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد جائیدادوں کی ضبطی، بے دخلی اور زمین کی ازسرِنو ملکیت بندی تحریک آزادی اور حق خود ارادیت کی آواز کو دبانے کے لیےایک منظم ریاستی حکمتِ عملی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد سو سے زائد قوانین تبدیل کیے جن کی مدد سے زمین کے مالکانہ حقوق کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نہ صرف عام شہری بلکہ حریت رہنماؤں اور سیاسی و سماجی کارکنوں کی جائیدادوں پر بھی بڑے پیمانے پر قبضے اور ضبطیاں عمل میں لائی گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ افراد کو قید و بند کی صعوبتوں کا شکار کیا جا رہا ہے۔عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور علمی حلقوں میں شائع ہونے والی متعدد رپورٹس اور تحقیقی پیپرز اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس پورے عمل کا مقصد آبادیاتی تبدیلی، سیاسی دباؤ، اور مقامی آبادی پر ریاستی جبر کو مزید تقویت دیناہے۔
بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس (FIDH )کی 2024 کی جامع رپورٹ Your Land Is Our Land کے مطابق بھارتی حکومت نے 2019 کے بعد 200 سے زائد قوانین میں ایسی ترامیم کیں جنہوں نے غیر مقامی افراد کیلئے کشمیر میں زمین خریدنے، تعمیرات اور جائیدادوں کی ضبطی کے عمل کو فروغ دیا۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہزاروں جبری بے دخلیاں (evictions) کی گئیں اور لاکھوں ایکڑ زمین “state land retrieval” کے نام پر ضبط کی گئی، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے خلاف ہے۔
(FIDH, Your Land Is Our Land, 2024 — https://www.fidh.org/IMG/pdf/kashmir832a.pdf)
Legal Forum for Kashmir (LFK)
کی 2023 کی فیکٹ شیٹ The Great Land Grab کے مطابق کشمیر بھر میں 178,005 ایکڑ سے زائد زمین کو ضبط کیا گیا اور متعدد علاقوں میں دہائیوں سے رہائش پذیر خاندانوں کو بغیر مقدمے، بغیر سماعت اور بغیر معاوضہ زمین ادا کیے، بے دخل کیا گیا۔ رپورٹ میں خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ حریت رہنماؤں، سیاسی خاندانوں اور مزاحمتی حلقوں سے وابستہ افراد کی جائیدادوں کو باقاعدہ حکمت عملی کے تحت نشانہ بنایا گیا تاکہ انکے لیے مشکلات پیدا کی جائیں اور وہ اپنے مقصد سے دور ہو سکیں۔
(LFK Factsheet — https://kashmirawareness.org/wp-content/uploads/2023/02/LFK-Factsheet-The-Great-Land-Grab.pdf)
اسی نوعیت کی تفصیلات کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (KIIR) کی 2025 کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں بھی ملتی ہیں جس کے مطابق جائیداد ضبطی کا عمل ترقیاتی منصوبہ نہیں بلکہ کشمیری سیاسی کارکنوں کے خلاف “economic strangulation” یعنی معاشی گلا گھونٹنے کی ایک حکمت عملی ہے۔ اس رپورٹ میں ایسے کئی کیسز کا ذکر ہے جن میں حریت رہنماؤں کے گھر، زرعی زمین یا تجارتی املاک کو بغیر عدالتی کارروائی کے ضبط کیا گیا ہے۔
(KIIR Human Rights Report 2025 — https://www.kiir.org.pk/Reports/human-rights-report-5232)
بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس مسئلے پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ معروف معاصر TRT Global نے FIDH کی رپورٹ کے تناظر میں اسے بھارت کی طرف سے “civic space shrinking” یعنی شہری آزادیوں کو محدود کرنے اور سیاسی کنٹرول کو بڑھانے کا طریقہ قرار دیا ہے۔
(TRT Global — https://trt.global/world/article/18216583)
اسی طرح The Express Tribune نے ایک مفصل رپورٹ میں بتایا کہ ہائی وے منصوبوں اور انفراسٹرکچر پروجیکٹس کے نام پر بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کیےجا رہے ہیں جسے عوام “settler-colonial expansion” سے موسوم کرتے ہیں۔
(Express Tribune — https://tribune.com.pk/story/2529497/highway-push-engulfs-farmers-land-in-iiojk)
اکیڈمک حلقوں میں شائع ہونے والی تحقیقات بھی اس پورے عمل کو سیاسی و آبادیاتی انجینئرنگ قرار دیتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی کتاب Pieces of Earth: The Politics of Land-Grabbing in Kashmir میں پروفیسر
Peer Ghulam Nabi Suhail نے تاریخی تناظر میں زمینی ملکیت کے نظام اور جدید دور کے ریاستی قبضہ مافیا کے طریقہ کار کو زیر بحث لایاہے۔ ان کے مطابق زمین پر ریاستی اختیار روز اول سے ہی طاقت کے استعمال سے منسلک رہا ہے، اور موجودہ دور میں یہ رجحان مزید بڑھا ہے۔
(سہیل OUP 2018 — https://academic.oup.com/book/26428/chapter/194819259).
LSE Shinzani Jain کی تحقیق کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد زمینی اصلاحات کی جگہ “land to the highest bidder” کی پالیسی نے لے لی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی کسانوں اور شہریوں کا زمینوں پر حق کمزور ہوا ہے۔
(LSE — https://blogs.lse.ac.uk/internationaldevelopment/2023/02/15/from-land-to-the-tiller-to-land-to-the-highest-bidder-land-grabs-in-jammu-and-kashmir/
اسی طرح Arif Mushtaq اور Dwivedi کی تحقیق میں کشمیر میں زمینوں کے قوانین میں اصلاحات اور 2019 کے بعد قوانین میں ترامیم کو تنقیدی انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس کے ذریعے ریاستی قوت کو غیر معمولی حد تک بڑھا دیا گیا۔
(IJRAR — https://ijrar.org/papers/IJRAR23A1216.pdf) انڈین جرنل آف لا اینڈ لیگل ریسرچ
(IJLLR)میں شائع ہونے والی تحقیق Navigating the Challenges of Land Acquisition in Jammu & Kashmir کے مطابق زمین کے حصول (land acquisition) کے چیلنجز کو قانونی نقطہ نظر سے تحلیل کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ نئی ترامیم مقامی لوگوں کے حقوق کو محدود کرتی ہیں۔(https://www.ijllr.com/post/navigating-the-challenges-of-land-acquisition-in-jammu-kashmir-and-himachal-pradesh).
انٹرنیشنل جرنل آف سوشل ریسرچ (IJSR) کے ایک تحقیقی آرٹیکل میں کشمیر کی زمین، ملکیتی نظام اور استعماریت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے، جس کے مطابق زمین روز اول سے سیاسی کنٹرول کا مرکز رہی ہے۔ https://www.ijsr.net/archive/v8i5/ART20197587.pdf).جموں وکشمیر لا اینڈ پبلک پالیسی (JKLPP) کی رپورٹDismantling Land Reforms in J&Kمیں بیان کی گئی تفصیلات کے مطابق بھارت کی نئی زمینی پالیسیوں نے سابقہ اصلاحات کو ختم کر کے زمینوں پر قبضہ کے لیے راہ ہموار کی ہے۔
(https://jklpp.org/dismantling-land-reforms-in-jk/
KIIR کی ایک اور تفصیلی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارتی سول انتظامیہ اور فوجی ادارے “strategic purposes” اور “anti-terror laws” کے نام پر زمین ضبط کر رہے ہیں، جن میں سیاسی مخالفین خاص طور پر نشانہ بنتے ہیں۔
(KIIR Blog ۔ https://www.kiir.org.pk/blogs/unravelling-the-impact-the-seizure-of-properties-and-land-grab-in-indian-occupied-kashmir-8628
تمام بین الاقوامی اور مقامی رپورٹس سے یہ حقیقت اشکار ہوتی ہے کہ کشمیر میں جائیداد ضبطی محض انتظامی عمل نہیں بلکہ ایک سیاسی و آبادیاتی حکمتِ عملی ہے۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس کا مقصد سیاسی مزاحمت کے خاتمہ، معیشت کو کمزور کرنے اور شہری آزادیوں کو محدود کرنا بھی ہے۔ حریت رہنماؤں کی جائیدادوں کی ضبطی خاص طور پر اس بات کی علامت ہے کہ ریاست اس عمل کو سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ عمل بنیادی انسانی حقوق، خصوصاً ملکیت کے حق (Right to Property)، بے دخلی کے خلاف تحفظ، اور پناہ کے حقوق سے متصادم ہے۔
یہ تمام شواہد اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں زمین ضبطی ایک منظم حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد سیاسی اختیارات کو کمزور کرنا، مقامی آبادی کو غیر محفوظ بنانا اور ریاستی کنٹرول کو مستحکم کرنا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں زمین ضبطی اور جائیداد کے حقوق پر حالیہ برسوں میں ایک واضح سیاسی اور سماجی بحران سامنے آیا ہے۔ یہ عمل ماضی میں صرف “غیر قانونی قبضوں کی بحالی (state‑land retrieval)” کی آڑ میں شروع کیا گیا مگر آنے والے وقت میں اس کی نوعیت ایک منظم اور طویل المدتی حکمتِ عملی کی شکل اختیار کرتی گئی جو سیاسی کنٹرول، آبادیاتی تبدیلی، اور شناختی دباؤ پر مبنی ہے۔
گارڈین کی رپورٹ ‘Bulldozer politics’: Modi’s demolition drive fuels Muslims’ fears in Kashmir کے مطابق سرینگر میں متعدد ورکشاپس، مکانات اور چھوٹے کاروبار بغیر پیشگی نوٹس کے ختم کیے گئے، اور ان پر دعویٰ کیا گیا کہ وہ “ریاستی زمین” پر قائم تھے۔ مکانات کو تباہ کرنے کی کارروائیاں 50,000 ایکڑ سے زائد زمین کو “state land” کے طور پر بازیاب کروانے کے نام پر کی گئیں، تاہم کشمیری عوام کا موقف برحق ہے کہ یہ محض اقتصادی اصلاح نہیں، بلکہ ان کی شناخت اور جائیداد کو نشانہ بنانے کی مربوط اور مذموم حکمتِ عملی ہے۔ ( The Guardian, 19 March 2023 – https://www.theguardian.com/world/2023/mar/19/bulldozer-politics-modi-demolition-drive-fuels-muslims-fears-in-kashmir
الجزیرہ کی رپورٹوں کے مطابق سرکاری زمینوں کے نئے قوانین اور ترقیاتی منصوبوں کو مقامی آبادی کے مفادات کی بجائے بیرونی سرمایہ کاروں اور ریاستی نیٹ ورک کو مضبوط بنانے کےلئے استعمال کیاجا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نئے قوانین کے تحت اب کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے، اور اس سے مقامی کشمیری باشندوں کا خوف بجا ہے کہ ان کی زمینوں کو غیر مقامی افراد میں تقسیم کر کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ( Al Jazeera, 28 October 2020 – https://www.aljazeera.com/news/2020/10/28/india-enacts-new-laws-in-kashmir-allowing-outsiders-to-buy-land
جزیرہ کی ایک اور رپورٹ اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ سیکیورٹی فورسز مثلاً بھارتی فوج، پیرا ملٹری یونٹس کے لیے کشمیر میں زمین کے حصول کو آسان کر دیا گیا ہے۔
ایک سرکاری حکم نامے نے “NOC” (No Objection Certificate)
کی شرط ختم کر دی ہے، جو پہلے سیکیورٹی فورسز کو زمین خریدنے یا حاصل کرنے کے لیے لازمی تھی۔ ( Al Jazeera, 28 July 2020 – https://www.aljazeera.com/news/2020/7/28/india-eases-rules-for-security-forces-to-acquire-land-in-kashmirمزید برآں، الجزیرہ کی حالیہ رپورٹ “Our lifeline: Kashmiris fear losing orchards, land to mega Modi projects”
میں کہا گیا ہے کہ کئی قصبوں میں ترقیاتی منصوبے (جیسے کالج، انفراسٹرکچر) بنائے جا رہے ہیں جن کے لیے زرعی زمین، خصوصاً باغات (orchards)، زبردستی حاصل کی جارہی ہے۔ مقامی لوگ ان پروجیکٹس کو اپنی زندگی کے ساتھ خطرناک کھیل قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ زمین مستقل بنیادوں پر اُن کی روٹی اور روزگار کا ذریعہ ہے۔ ( Al Jazeera, 10 February 2025 – https://www.aljazeera.com/news/2025/2/10/our-lifeline-kashmiris-fear-losing-orchards-land-to-mega-modi-projectsکشمیر کے کسان بھی ان اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں ایک کسان نے بتایا کہ ان کی چاول اور سبزیوں کی زمین ایک نیا ہائی وے منصوبہ بنانے کے لیے ضبط کی گئی ہے، اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ صرف ترقیاتی اقدام نہیں بلکہ ان کی زمین اور ان کی ثقافت کو “ہندوائز” کرنے کی کوشش ہے۔ ( The Express Tribune / AFP via Tribune.pk, 19 February 2025 – https://tribune.com.pk/story/2529497/highway-push-engulfs-farmers-land-in-iiojk
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ مزکورہ بالا بھارتی اقدامات پر مسلسل توجہ دیں اور مقبوضہ کشمیر کے زمین حقوق کے بحران کو عالمی سطح پر روشناس کرائیں۔
حال ہی میں حریت رہنمامیاں عبدالقیوم، فاروق رحمانی ، آسیہ اندرابی ، شبیر شاہ ،شیخ یعقوب اور ان جیسے متعدد سیاسی رہنماؤں کی ذاتی املاک کو ضبط کرنے کا فیصلہ حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کے خلاف براہِ راست ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا مذموم بھارتی اقدام ہے جسکی جتنی مزمت کی جاے کم ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی انسانی حقوق، عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، منصفانہ عدالتی اصولوں اور کشمیری عوام کے پیدائشی سیاسی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
میاں عبدالقیوم جیسے وکلاء اور حریت رہنماجنہوں نے حقِ خودارادیت اور انسانی آزادیوں کا قانونی دفاع کیا، ان کے خلاف املاک ضبطی جیسے اقدامات “retaliation” کی واضح مثال ہیں۔
یہ تمام اقدامات بھارت کی جانب سے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے زمین کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ حقِ خودارادیت اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 1.2، جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 (XV) (Decolonisation Declaration)، اور 26/25 (XXV) میں تسلیم شدہ بنیادی پیدائشی حق ہے۔ مزید برآں، کشمیریوں کا جمہوری مستقبل UN Security Council Resolution 47 (1948)، Resolution 51 (1948) اور بعد کی قراردادوں کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ راے شماری کے ذریعے طے ہوناباقی ہے۔ یہ حق کسی بھی ایک ریاست کے یکطرفہ قانون یا مقامی ضابطوں سے ہرگز ختم نہیں ہو سکتا۔ (AA News Analysis https://www.aa.com.tr/en/analysis/opinion-un-and-neglected-conflict-of-kashmir/1999639
پاکستان مسلسل UN سیکیورٹی کونسل کو یاد دہانی کراتا ہے کہ ان قراردادوں کا احترام کیا جائے اور کشمیر کے عوام کو وہ ریفرنڈم دیا جائے جس کا وعدہ عالمی برادری نے واضح طور پر کیا تھا۔
پاکستانی حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ “بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی زمین کی ضبطی، آبادیاتی ڈھانچے کو بدلنے اور حقِ خودارادیت سلب کرنے کے غیر قانونی اقدامات UN قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں۔”
(Statement at UNSC — https://radio.gov.pk/25-03-2025/pakistan-calls-on-unsc-to-implement-resolutions-promising-right-to-self-determination-for-kashmiris
قومی اسمبلی نے 5 اگست 2025 کو منظور کردہ قرارداد میں بھارت کے تمام یکطرفہ اقدامات کو غیر قانونی اور عالمی قوانین سے متصادم قرار دیا، اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔(NA Pakistan Resolution https://www.radio.gov.pk/05-08-2025/na-reaffirms-support-for-kashmiris-right-to-self-determination
OIC اور انڈیپنڈنٹ پرمننٹ ہیومن رائٹس کمیشن IPHRCکی متعدد رپورٹس میں بھارت کی طرف سے ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی، زمین ضبطی اور سیاسی انتقامی اقدامات کی بھرپور مذمت کی ہے۔ OIC کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن، بین الاقوامی انسانی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کے منافی ہیں اسلیےبھارت کو آبادیاتی تبدیلی کے گھناونےمنصوبے کو ترک کرنا چاہیے۔
(OIC Statement — https://mofa.gov.pk/oic-reaffirms-strong-and-unequivocal-support-for-the-kashmir-cause)
(IPHRC Report — https://www.oic-iphrc.org/en/data/docs/session_reports/15th/IPHRC%20Press%20Release_15th%20Session_EV.pdf
یورپی یونین نے بھی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی ہے اور بھارت پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین، خاص طور پر املاک کے حقوق اور سیاسی آزادی کا احترام کرے۔ یورپی یونین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کشمیر میں زبردستی بے دخلیاں اور آبادیاتی تبدیلی خطے میں عدم استحکام کو جنم دے رہی ہیں۔
(EU Statement — https://www.consilium.europa.eu/en/press/press-releases/2025/05/08/indiapakistan-statement-by-the-high-representative
کشمیری قیادت خصوصاً APHC نے املاک ضبطی کو “آبادیاتی قبضے اور سیاسی جبر” کا تسلسل قرار دیا ہے۔
(APHC Statement — https://kmsnews.org/kms/2025/11/13/aphc-slams-attachment-confiscation-of-properties۔
بالا حقائق کی روشنی میں بین الاقوامی معاشرے اور عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی بحران کو بھارت کی طرف سےمحض داخلی معاملہ قرار دے کر نظر انداز نہ کرے۔ اقوامِ متحدہ کو فوری طور پر کشمیر پر ایک آزاد Fact-Finding Mission تشکیل دینا چاہیے، OIC اور یورپی یونین کو مشترکہ Monitoring Mechanism قائم کرنا چاہیے، اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو اس آبادیاتی و سیاسی انجینئرنگ کے خلاف مؤثر مہم چلانی چاہیے۔ عالمی برادری کو وہ تمام اقدامات تجویز کرنے چاہئیں جو کشمیر کے عوام کے حقِ خودارادیت، معاشی استحکام، جائیدادوں اور سیاسی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
کشمیر کے عوام کا حقِ خودارادیت کوئی سیاسی مسلہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد جموں وکشمیر کے عوام کا بنیادی پیدائشی حق ہے، جسے عالمی قانون، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اور انسانی وقار کے اصول مکمل طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ بھارت کی جائیداد ضبطی کی سیاست نہ صرف اس حق پر حملہ ہے بلکہ اس قانونی حق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دبانے کی مذموم کوشش بھی ہے۔ عالمی ضمیر کو اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی، ورنہ تاریخ گواہی دے گی کہ دنیا نے ایک محکوم قوم کو اس کے بنیادی حق سے محروم ہوتے دیکھا اور خاموش تماشائی بنی رہی ۔
واپس کریں