دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر پہ کانفرنس اور حل ۔محمد خورشید اختر
No image اگلے دن وائس فار جیسٹس کے زیر اہتمام "پیس اینڈ جسٹس" فار کشمیر کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ، کانفرس میں لاتعداد مقررین اور سینکڑوں سامعین شریک تھے ، مجھے دعوت ملی کشمیر لبریشن سیل کے دوست نجیب الغفور صاحب کی طرف سے وقت کی قلت کے باوجود شرکت کی خواہش تھی ، مقررین میں ترکیہ کے مہمان دانشور کے علاؤہ ممتاز کشمیری رہنما اور عالمی سطح پر کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم دانشور جناب ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی تھے جبکہ آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیراعظم سردار یعقوب خان ، سابق صدر و سفیر سردار مسعود خان ، غلام محمد صفی ، بریگیڈئیر ڈاکٹر محمد خان ، سردار عبدلخالق وصی ، سردار ذوالفقار روشن ، سردار زبیر ، راجہ خان افسر خان ، سردار عابد رزاق ، شہیر سیالوی ، افراز گردیزی ، امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر مشتاق احمد ، سابق امیر عبد الرشید ترابی ، حریت رہنما رفیق ڈار ، کشمیری رہنما ندیم کھوکھر ، سردار نبیلہ ارشاد خان ، سردار نجیب الغفور خان سمیت کئی رہنما شریک تھے ،
ترکیہ کے دانشور رہنما اور ڈاکٹر غلام نبی فائی صاحب کے علاؤہ زیادہ تر وہی ماضی کی باتیں تھیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ، سفارتی وکالت اور مل کر جدوجہد کے لیے بیس کیمپ یعنی آزاد کشمیر کو مضبوط کرنا ، یہی وہی باتیں ہیں جو 77 سال سے ہو رہی ہیں ، موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی نئی بات نہیں ، اگرچیکہ کے تاریخ وہی ہے لیکن آپ نے تدبیر اور فکر بھی بیان کرنی ہے اور نہ صرف بیان کرنی ہے بلکہ فوری عمل درآمد کرنا ہے ، کوئی آپ کی جگہ جدوجہد نہیں کرے گا ، "تسی آپ تپسی تے ٹس کرسی" کے نظریات سے نکل کر سوچنا چاہیے ، میں نے کئی بار تجاویز پیش کی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت ، آزاد کشمیر کے رہنماؤں اور اوورسیز کشمیریوں پر مشتمل عبوری کابینہ بنا کر نمائندہ اور متحد تحریک شروع کی جائے جسے آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومت سپورٹ کرے ، دنیا بھر میں ریفرنڈم کروائیں ، سفارتی حلقوں سے ملیں ، جبکہ اسوقت سب سے بڑے تین ایشوز ہیں ان کو اٹھایا جائے 1. مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، 2. کشمیری قیادت کی رہائی خصوصاً یاسین ملک ، شبیر احمد شاہ ، مسرت عالم اور دیگر کی فوری رہائی اور تیسرا آزادی اور استصواب رائے پر فوری رائے شماری یہ کام ۔کشمیری عوام کو اور قیادت کو آزادی کے لیے جدوجہد خود کرنی ہوگی کوئی کر کے نہیں دے گا ۔یہ ٹکڑیوں ، ٹولیوں اور اپنے اپنے نظریات اور تصورات سے تحریکیں نہیں چل سکتیں ، کوئی کہتا ہے اسلامی انقلاب ، کوئی خودمختاری ، کوئی سوشلزم اور کوئی کچھ اس طرح سے کسی کی دال نہیں گلے گی ، بس نشستن گفتن اور برخاستن کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ، آزاد کشمیر کی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہاں رہنے والوں کو مکمل سہولت دے اور پھر تحریک کے لیے ایسی جدوجہد کو
سپورٹ فراہم کرے اس کے علاؤہ
محض تحریک آزادی کشمیر ، بیس کیمپ یا لال چوک میں پرچم لہرا دیں گے یہ سب جذباتی باتیں ہیں ، کانفرنس میں تو سب سے مختصر خطاب سردار یعقوب صاحب نے کیا اور کہا کہ" مجھ سے لکھوا لیں کہ کشمیر کو آزاد کروا کہ چھوڑیں گے" چلو مان لیتے ہیں مگر کیا یہ آزادی ان گرے گی؟ یا پلیٹ میں رکھ کر دے دی جائے گی ، تحریک کی سب سے بڑی کامیابی سیاسی اور سفارتی جدوجہد ہوتی ہے ، جدید دور کے تقاضوں کے مطابق یہ باتیں ممکن نہیں لگتیں ، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور پھر بھارت کا ظلم برابر رکھ کر دیکھیں کس طرح ابادی کا تناسب ، تقسیم اور تبدیل کیا جا رہا ہے ، جموں و لداخ میں الگ تحریک چل رہی ہے ، وادی کے بڑے بڑے رہنما گرفتار اور زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں ، یہی سب سے بڑا کام ہے کہ سب گروپ ایک چھتری تلے متحد ہو کر عالمی اور علاقائی سطح پر"ریلیز یاسین ملک " ریلیز شبیر احمد شاہ ، تحریک چلائی جائے ، ساتھ انسانی حقوق کی خلاف وارزیوں کو اجاگر کیا جائے ، سکھوں کی تحریک کتنی عالمی سطح پر سرگرم ہے ، میری تجویز ہے کہ آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک ہی تنظیم تحریک کی صورت میں بنائی جائے اور ایک سال کی بنیاد پر کابینہ بنائی جائے جس کا باقاعدہ تبدیل کا آئین و دستور ہو ، ایک بات ذھین نشین کر لیں جنگ عسکری ہو ، سیاسی ہو یا سفارتی عوام کے اتحاد کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی ، اسی اتحاد کا سب گروہوں اور تنظیموں کو خیال کرنا ھوگا ، وگرنہ تقریریں ہوتی رہیں گی اور نوجوان لاتعلق ہوتے جائیں گے ،
کانفرس میں اکثر لوگ سننے سے لا تعلق تھے یا پریشان تھے کہ کیا وہ راستہ ہو جو امن و انصاف کی طرف لے جائے ، البتہ کانفرنس کے منتظمین اور کشمیر لبریشن سیل کی کوششیں قابلِ قدر ہیں ، کانفرنس میں مذاکرہ اور آرا کا سیشن ہونا چاہیے ایک مکمل ایجنڈے اور قابل عمل حل کے لیے ذمہ داریاں عائد کی جائیں ، "یہ جملہ کے ہونا چاہیے ، ھم کریں گے ، " اب ان جملوں کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا ، جو کر سکتے ہیں وہ فوری کریں اور مشاورت مکمل کر کے اعلان اور دستور دے کر جائیں ، مفادات سے بالاتر ہو کر ایک ہی ایجنڈا اور تنظیم ہونی چاہیے جن کے یہی تین مقاصد ہوں ، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وارزیوں پر عالمی سطح پر احتجاج ، کشمیری لیڈروں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ، باقی فیصلے اور نظریات بعد میں دیکھ لیجیے گا ، وقت کا تیز دھارا آپ کا انتظار نہیں کرے گا ، سرگرم لوگ چپ ہو جائیں گے اور معاشی اور سماجی ضرورتوں میں پھنس جائیں گے ۔ اس طرح کی کانفرنسوں کا ضرور انعقاد کریں مگر ایک جامع حل کے ساتھ ،
واپس کریں