دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں موجود چالیس لاکھ افغانوں میں سے 16 لاکھ کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں
No image اکتوبر 2024 میں، جب افغانستان سے تقریباً 300 افراد نے ایران کی سرحد پار کرنے کی کوشش کی تو ایرانی فورسز نے انہیں تنبیہ کی۔ تاہم، افغان شہری نہ رکے اور سرحد عبور کر گئے۔ ایرانی فورسز کے فائرنگ کے نتیجے میں ان 300 افغان شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دو روزہ مکمل تفتیش کے بعد انہیں افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔
· مئی 2025 میں، افغان فضائیہ کے سابق پائلٹ محمد امیر توسلی کی ایران میں پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور انہیں ڈیپورٹ کرنے کا حکم جاری ہوا۔ واپس جانے کے بجائے، انہوں نے ایران میں ہی خود کو آگ لگا کر خودکشی کر لی۔
· حالیہ ایران-اسرائیل تنازعے کے دوران، جاسوسی کے الزام میں ایران اب تک 65 افغان شہریوں کو سزائے موت دے چکا ہے۔
ان تمام المناک واقعات کے باوجود، نہ تو طالبان حکومت کے کسی وزیر کی جانب سے ایران کے خلاف کوئی ردعمل سامنے آیا، نہ ہی عام افغان یا ایرانی شہریوں نے سوشل میڈیا پر ان واقعات کا کھل کر ماتم کیا۔ اس کے برعکس، طالبان حکومت نے ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے بجائے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران نے ہمیشہُ انٗ کو اپنے اوقات میں رکھا ، ہیبت اللہ کی طرح وہاں آیت اللہ کے حکم کے سامنے پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا ۔
سرد جنگ کے دور میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بھارت روس کے ساتھ تھا۔ جب امریکہ آیا تو بھارت اس کا حلیف بنا رہا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت کی وجہ سے روس سے دشمنی مول لی، اور بعد میں امریکہ سے بھی تعلقات خراب ہوئے۔ اور ستر ہزار شہریوں کی قربانی دی ۔
لیکنُ اس کے باوجود آج افغانستان کا سب سے قریبی دوست بھارت ہے۔ کابل میں افغان شہری بڑے فخر سے بھارتی وی لاگرز کو بتا رہے ہیں کہ "ہم پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔" سرحد پر طالبان بھارتی سیاحوں کے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بغیر چیک کیے اندر جانے دے رہے ہیں۔
پاکستان میں موجود چالیس لاکھ افغانوں میں سے 16 لاکھ کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں۔ طالبان رہنما ملا ضعیف دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو پاکستان میں موجود ان کے "نظریاتی حلیف" اس ملک کو "اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے"۔ ایسی ہی دھمکی ایرانی ملاواں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی دی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھر کے مفادات کے نمائندے موجود ہیں۔
اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو ان "زومبیز" (طالبان) کی حمایت پر لگام لگانی ہوگی۔ جو شخص ان کے نظام سے محبت رکھتا ہے، وہ خوشی سے وہاں جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس "جہنم" میں تو پاکستان میں موجود افغانی بھی واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لیکنُ بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ پھر بھی طالبان کی تعریفیں اور پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔
واپس کریں