
جن انگریزوں نے ہمارے قانون،آئین اور ضابطے بنائے ان کے دور میں سول و سیشن عدالتیں اور ہائی کورٹس عام طور پر شہر کے“سول لائنز”یا شہر کے مرکزی علاقے میں ایک مخصوص ”کچہری کمپاؤنڈ“ میں مرکوز ہوتی تھیں، آج بھی پاکستان و بھارت کے بیشتر شہروں میں ضلع کچہریاں وہیں قائم ہیں جہاں انگریزوں نے 19ویں صدی میں بنوائی تھیں۔خاص بات جس پر دھیان رکھا گیا تھا کہ ہر شہر کے مرکزی تانگہ اسٹینڈ یعنی اس وقت کے مرکزی بس اسٹینڈ کے نزدیک ترین قائم ہوتی تھیں تا کہ سائلین،وکلاء اور جج صاحبان کو اپنی اپنی عدالتوں تک پہنچنے میں آسانی ہو اور کسی کو مرکزی تانگہ اسٹینڈ سے آگے جانے کی ضرورت نہ پڑے اور نہ ہی آگے جانے کے لیئے مذید سفر کرنا پڑے۔
یہ مختصر تمہید اس لیئے باندھی کہ ریڈ زون کے قرب واقع اسلام آباد ہائی کو رٹ کو واپس پرانی جگہ(سول کورٹس جی ٹین ون کے پاس) پر لے جانے پر وکلاء کے جس گروپ کو اعتراض ہوا ہے، غالباً یہ وہ وی آئی پی گروپ ہے جو خود سول کورٹ میں پیش ہونے کو اپنے لیول سے کم سمجھتا ہے اور اپنے منشیوں یا شاگردوں کو لوئر کورٹس میں بھیج دیتا ہے۔
(یاد رہے ریڈ زون کے قریب ہی واقع اسلام آباد ہائی کورٹ تک کسی سستی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں، ماسوائے اوبر یا کریم وغیرہ کے،جن کے کرائے بھرنا سائلین اور وکلاء کے بس سے باہر ہوتا ہے)
امر واقع یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنی پرانی جگہ واپس لانے کے حکومتی فیصلے پر سنجیدہ اورکام کرنے والے وکلاء اور سائلین نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے سے تو ہمارے سابقہ مالک انگریز بہتر تھے جو کم از کم عدالتوں سے پہنچنے کے لیئے سائلین اور وکلاء کا احساس اور درد تو رکھتے تھے، اس لیئے جب قانون، ضابطے اور عدالتیں انگریزوں کی چلانی ہیں تو طور طریقے بھی انہی کے اپنانے ہوں گے۔
ہر شعبے میں آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کے مصداق ہمارے مزاجوں کے رنگ نرلالے کیوں نہ ہوں۔
واپس کریں