دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عظمیٰ ۔تاریخ کے جھروکے میں۔ پارٹ ۱
طاہر سواتی
طاہر سواتی
صرف گزشتہ تیس سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سجاد علی شاہ ایک اصول پسند جج اور نواز شریف ایک ڈکٹیٹر نظر آتے ہیں جس نےسپریم کورٹ پر حملہ کروایا۔جسٹس سجاد علی شاہ کو بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں پانچ جون ۱۹۹۴ کو ’سینیارٹی‘کونظرانداز کرکے چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔اس وقت وہ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے۔بنیادی وجہ یہ تھی ۱۹۹۳ میں جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں جس ۱۱ رکنی بینچ نے نوازشریف کی حکومت کو بحال کیا تھا سجاد علی واحد جج تھا جس نے اپنے اختلافی نوٹ میں غلام اسحاق کے اقدام کو درست قرار دیا تھا اس کی دلیل قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور عصبیت کی بنیاد پر تھی۔ سجاد علی شاہ کا موقف تھا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے دو وزرا ئے اعظم کو توبحال نہیں کیا گیا لیکن پنجابی کی باری آئی تو صدارتی اقدام کالعدم کیوں؟
مارچ ۱۹۹۶ کو جناب وہاب الخیری کے الجہاد ٹرسٹ نے سپریمُ کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضح کرنے کے لئے ایک پیٹیشن دائر کی۔اس پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی زیر قیادت سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا اصول طے کر دیا(مارچ ۱۹۹۶ کا ججز کیس)۔
اس فیصلے کے نتیجے میں درجن بھر سے زائد ججوں کی تعیناتی کالعدم قرار پائی اور انہیں گھر جانا پڑا لیکن شاہ جی نے خود کو اس اصول سے مستثنیٰ کر لیا تھا۔
بعد میں سجاد علی شاہ کے ججوں کی تقرری پر وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو سے اختلافات پیدا ہو گئے اورُُجب صدر فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کردیا تو محترمہ بے نظیربھٹو انصاف لینے سپریم کورٹ گئیں تو سندھی وزیراعظم بحال نہ کرنے کا انتہائی متعصب نکتہ اٹھانے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی یوٹرن لے لیا اور بینظیر حکومت کی برطرفی جائز قرار دے دی۔
آخر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کچھ ہوش آیا تو انہوں نے ۱۹۹۷ کو متفقہ طور پر ۱۳ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ۵۸ (۲) بی کو ختم کردیا جس کے تحت صدر کو پارلیمان توڑنے کا اختیار حاصل تھا۔
ایوان صدر کی ایما پر یہ آئینی ترمیم سپریم میں چیلنج ہوئی، لیکن اس پر سماعت کرنے کی بجائے ۲ دسمبر ۱۹۹۸ کی صبح جب شاہ جی گھر سے سپریم کورٹ تشریف لائے تو اس کی جیب میں ایک لکھا ہوا فیصلہ بھی تھا جو اس نے کمرۂ عدالت میں پڑھ کر سنا دیا گیا جس میں اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار بحال کر دیا گیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ دو حصوں میں تقسیم تھی۔
جس کمرہ عدالت میں سجاد علی شاہ ۳ رکنی بینچ کے ساتھ پارلیمان کے متفقہ ترمیم کو کالعدم کررہے تھے اس کے ساتھ والے کمرۂ عدالت میں جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں دس ججوں پر مشتمل فل کورٹ آئینی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔ جب اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کو آئینی ترمیم معطل کرنے کی اطلاع دی تو فل کورٹ نے فوری طور پر سجاد علی شاہ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
بعد میں فاروق لغاری نے تسلیم کیا کہ اگر ٹرپل ون برگیڈ کا تعاون حاصل ہوتا تو وہ دونوں فیصلوں کے درمیانی مہلت کے دوران ہی حکومت کو برطرف کردیتے۔
سجاد علی شاہ ایک متعصب اور انا پرست شخص تھا۔
اس نے اپنے اقدمات سے حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ان دنوں پاکستان اپنی گولڈن جوبلی منا رہا تھا جس کے تناظر میں او ائی سی کا ایک خصوصی اجلاس بھی اسلام آباد منعقد ہو رہا تھا۔ بیرونی ممالک سے کئی سربراہان اور اہم شخصیات پاکستان کے دورے پر آرہی تھیں۔
دوسری جانب سجاد علی شاہ آئے روز وزیراعظم عدالت طلب کرتا رہا ۔ نواز شریف ایک بار تو بنفس نفیس حاضر ہوئے۔ عدالتی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو کہنا پڑا
“اگر سارے معاملات ہی چیف جسٹس نے چلانے ہیں تو پھر بیرونی ممالک سے آنے والی شخصیات اور وفود سے بھی معاملات وہ خود ہی طے کر لیں”
ایسی صورت حال میں سپریم کورٹ کے کچھ ججوں نے صلاح مشورے کے لیے فل کورٹ میٹنگ کے لیے ریکوزیشن دے دی۔ لیکن متعصب سجاد علی شاہ نے نہ صرف یہ ریکوزیشن مسترد کر دی بلکہ ان سب کو اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ سے ہٹا کر لاہور،پشاور،کوئٹہ اورکراچی پہنچا دیا۔جس انداز سے سپریم کورٹ کے ججوں کا تبادلہ کیا گیا تھا، اس طرح تو کسی پٹواری کی تبادلے کی مثال بھی نہیں ملتی ۔
کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور مزید احکامات تک انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا،
بعد میں سپریم کورٹ کے پشاور بنچ نے بھی کوئٹہ بنچ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ان حالات میں عدالت عظمیٰ بظاہر دو گروپوں میں منقسم نظر آئی اور بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔
شاہ جی کی اپنی تعیناتی اپنے ہی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کالعدم قرار دے جاچکی تھی لیکن وہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی پرُ جاری رکھے ہوئے تھے جسُ پر وکلا اور کارکن نے احتجاج کیا کہ سجاد علی شاہ یہ سماعت کرنے کے مجاز نہیں ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے ۵ رکنی بینچ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کی جانب سے ۱۰ رکنی بینچ پر مشتمل ۲ علیحدہ علیحدہ کاز لسٹیں جاری کی گئی تھیں اور دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے فیصلوں کے خلاف عدالتی اور انتظامی احکامات بھی جاری کیے تھے
اور بعد میں جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی سپریم کورٹ کے جس ۱۰ رکنی بینچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کی تعیناتی کو آئین کے منافی قرار دیا اور یوں جسٹس اجمل میاں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کی بنا پر چیف جسٹس مقرر ہو گئے ۔
سجاد علی شاہ اپنی پینشن اور مراعات سے بھی محروم رہے اور ۲۰۰۹ میں جب انھوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکومت کو حکم دیا کہ سجاد علی شاہ کو پینشن ادا کی جائے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں آج بھی دیگر چیف جسٹسز کے ساتھ سجاد علی شاہ کی تصویر موجود ہے باوجود اس کے کہ اسی عدالت نے انھیں اس عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا۔
کہانی لمبی ہو گئی صرف اس وقت اسفندیار ولی خان کے پارلیمان سے خطاب کو سنیں تو سمجھ آئیگی کہ جسٹس سجاد علی شاہ عدلیہ کے نام پر ایک سیاہ دبہ تھے۔
واپس کریں