طاہر سواتی
سوال ایک ہی ہے کہ اس ملک میں جب طاقتور اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا یہ غیر جانبدار ہوکر بھی سب سے زیادہ جانبدارانہ کردار ادا کرتے ہیں تو پھر من اللہ جیسے مشرف کے وزیر مشیر کس حیثیت سے انقلابی بن رہے ہیں اور ایک باغیانہ عدلیہ کا تآثر سامنے لا رہے ہیں ۔
پھر آٹھ گھنٹے معافیاں مانگنے کے باوجود غنڈا پور بھگت سنگھ بننے کی کوشش کیوں کرتا ہے۔ اور افگانستان جیسے سنگین مسئلے کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا اعلان کرتا ہے۔
افگانستان ، کشمیر اور ایٹمی پروگرام تو نواز شریف اور بینظیر بھٹو شہید جیسے وزرائے اعظم کے لئے بھی شجر ممنوعہ رہے ہیں ۔
پھر ایک کٹ پتلی گنڈا پوری جسے مفروری کی حالت میں وزرات اعلی کی کرسی عنایت کردی گئی وہ اتنا طاقتور کیسے بن گیا کہ خارجہ مسائل اپنے ہاتھوں میں لینے کا اعلان کردے اور صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول لکی مروت اور باجوڑ کی پولیس فوج کو للکارنا شروع کریں ۔
اور آخرکار بلوچستان کے گوادر سے لیکر خیبر پختونخواہ کے شمال تک ہمارے مغربی بارڈر کا ہر وہ حصہ انتشار کے لپیٹ میں کیوں ہے جہاں سے سی پیک گزر رہا ہے۔ جبکہ مشرقی بارڈر پر سکون ہی سکون ہے۔
کیا یہ سب کچھ اس ملک کے طاقتور اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ہورہا ہے؟
ہزگز نہیں ۔ ممکنہ دو صورتیں ہیں ۔
پہلی صورت ؛
اسٹبلشمنٹ میں پرو امریکی گروپ اتنا طاقتور ہے کہ چیف بھی ان کے سامنے بے بس ہیں ۔ تو اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو عنقریب پنجاب ، بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی ایسے اقدمات کرسکتے ہیں کہ وفاق نامُ کی کوئی چیز باقی نہ ہیں رہے گی ۔ اگر گنڈاپوری کو اسی طرح فری ہینڈ دیا گیا تو یہ اس ملک میں خطرناک خانہ جنگی کی ابتدا ہوگی جس کی پہلی اور آخری ذمہ داری موجودہ اور سابقہ اسٹبلشمنٹ کے اوپر آئیگی ۔
دوسری صورت یہ نظر آرہی ہے کہ جان بوجھ کر اس فتنے کو فری ہینڈ دیا گیا ہے تاکہ اس قسم کی حرکتوں سے ان کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے جواز مہیا کیا جاسکے۔ اب پختونخواہ میں ان ہاؤس تبدیلی یا گورنر راج کے نفاذ کا راستہ تقریبا ۂموار ہوچکا ہے۔
بہرحال جو بھی ہو نومبر تک اس اونٹ نے ہر صورت ایک کروٹ بیٹھ جانا ہے۔ امریکی انتخابات ، عدلیہ کی سمت اور آئی ایم ایف کے پروگرام نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا یا اللہ نہ کرے کسی گہری کھائی گرے گا، جہاں سے نکلنے کا حل پھر کسی کے پاس نہیں ہونا۔
واپس کریں