دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دس جنوری ایک تاریخ ساز دن
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
گذشتہ سال ماہ مئی میں شائع ہونے والے اپنے کالم "جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ اُمید سحر" کا اختتام ان سطور سے کیا تھا۔" جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صورت میں اک نئی اُمید سحر پید ا ہوئی ہے کہ ایک ایسا جج جو تاریخ کو سامنے رکھتا ہے اورہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے۔مستقبل میں ہمیں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے پیشروجسٹس افتخار چوہدری اور بابا رحمتا ثاقب نثار کی طرح اندھا دھند جوڈیشل ایکٹوزم سے پرہیز کریں گے ۔کیونکہ ماضی میں چیف جسٹس کے عہدہ پر براجمان ہوکر کئی افراد اپنے آپکو آئین و قانون سے ماوراء اور عقل کل سمجھتے رہے ہیں"۔الحمداللہ آج بطور چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسی ہرگزرتے دن کے ساتھ اک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔بدقسمتی سے تاریخ میں ہر آمر کے سامنے سرنگوں ہونے والوں میں اعلی عدلیہ کے ججز صف اول میں شامل رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آمروں کو جواز حکومت بخشنے کے لئے نت نئے قانونی جواز بھی معزز ججز مہیا کرتے رہے ہیں۔ غیر منتخب اور غیر سیاسی ڈکٹیٹرز کے منتخب حکومتوں پر شب خون کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کرنے والے کئی ججز نے تو اپنے فیصلوں میں آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتے وقت کسی قسم کی شرم بھی محسوس نہ کی۔
سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کے الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں کہ مشرف مارشل لا کو راستہ دینے اور مارشل لا کو قانونی قرار دینے والے ججوں کا بھی ٹرائل و احتساب ہونا چاہیے۔10جنوری 2024تاریخ ساز دن ہے جس دن سپریم کورٹ نے مشرف کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔اس دن تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے بڑی آئینی عدالت نے اک آئین شکن کو غدار قرار دینے پر مہر ثابت کردی۔ اسی دن سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی المعروف ٹرکاں والی سرکار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف جاری کرپشن ریفرنس سے بچنے کے لئے استعفی دے دیا۔ یاد رہے استعفی دینے والے موصوف وہی جج ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالتی ٹریبونل کو بطور لاہور ہائیکورٹ جج یک جنبش ختم کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری فرمایا تھا پھر اسی غیر آئینی و غیر قانونی فعل کے ارتکاب پر نادیدہ قوتوں کی جانب سے بطور سپریم کورٹ جج ترقی کا انعام بھی حاصل کیا۔ 10جنوری 2024 اسلئےبھی تاریخ ساز دن ہےکہ پاکستان میں جمہوریت پر شب خوب مارنے والوں کو پہلی مرتبہ آئینی و قانونی طور پر شکست ہوئی۔ یہ دن اسلئے بھی تاریخ ساز ہے کہ اس دن پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے مارشل لاء نافذ کرنے والے پرویز مشرف کو غدارقرار دے دیا۔ بلاشبہ یہ نواز شریف کا سرخروہونے کا بھی دن ہے۔ یاد رہے تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف 3نومبر 2007کی غیر آئینی ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلانا تھا۔
نواز شریف ، جسٹس قاضی فائز عیسی و جسٹس سیٹھ وقار مرحوم و دیگر آئین پسند ججز کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائےگا جنہوں نے آئین شکنوں کے سامنے جھکنے کی بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرنا پسند کیامگر افسوس اس جدوجہد میں آئین پسندوں کو آئین کی سربلندی کے لئے بہت قربانیاں دینا پڑیں۔یہ تاریخ ساز دن سول سپرمیسی کی جانب پہلا قدم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے عہدہ کے باقی ماندہ مختصر سے دورانیہ میں پاکستانی آئینی تاریخ کو درست پٹری پر چڑھانا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس پہلےسے موجود اپنے اختیارات کو پارلیمنٹ کے قانون "سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر" کے سامنے سرنڈر کیا اور یکے بعد دیگرے ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کیس، فیض آباد دھرنا نظر ثانی ایسے تمام مقدمات کو سپریم کورٹ کی زینت بنایا ، جن مقدمات کی سماعت تو درکنار ، ان مقدمات کا نام لیتے ہوئے بھی شاید سابقہ چیف جسٹس صاحبان کی ٹانگیں کانپنا شروع کردیتی ہونگی۔ اسی طرح ادارہ جاتی احتساب کی بات کی جائے تو ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کی سرکوبی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی نیت اور شفافیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام اہم مقدمات کی براہ راست میڈیا کوریج کا فیصلہ کیا ۔یہ دن اسلئے بھی تاریخ ساز ہے کہ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار کو ذہنی مریض قرار دینے والے سیاسی لیڈران اسی دن انتخابات کے لئے نااہل قرار پائے ہیں۔کاش یہ سیاسی لیڈران غیر منتخب قوتوں کا دُم چھلا بننے کی بجائے قانون کو اپنا راستہ آپ بنانے کا موقع فراہم کرتے تو آج یہی سیاسی لیڈران مقافات عمل کا شکار نہ ہوتے ۔
اس وقت خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنے آپکو سیاسی و عدالتی معاملات سے الگ کیا ہوا ہے۔باوجود اسکے پرویر مشرف پھانسی کی سزا بھگتے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا مگر سپریم کورٹ کے فیصلہ نے مستقبل میں کسی قسم کی مہم جوئی کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے رستہ بند کرنے کا اہتمام ضرور کردیا ہے۔ راقم آج بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے پُرامید ہے وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک پاکستانی عدلیہ کے لئے ایسے نظائر چھوڑ کرجائیں گے جو نہ صرف مشعل راہ ہونگے بلکہ انکی پیروی کرنا لازم قرار پائے گا۔ یقینی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون و انصاف کے لئے اُمید سحرہیں۔
واپس کریں