دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے افعال و اختیارات
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
آئین پاکستان ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی تشکیل، افعال اور اختیارات بارے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ آئین ریاست پاکستان کے اغراض و مقاصد ، بنیادی انسانی حقوق، ریاستی ذمہ داریوں ، ریاست کے انتظامی و مالیاتی اختیارات ، نظام ریاست کی بابت واضح ہدایات مہیا کرتا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مالیات معاملات کی جانچ پڑتال کے حوالہ سے آڈیٹر جنرل کا عہدہ آئین پاکستان میں مذکور ہے۔ آڈیٹر جنرل کیا ہے؟ اسکی ذمہ داریاں و افعال کیا ہیں؟ اسکے اختیارات کیا ہیں۔ آیئے اس بابت آئین پاکستان سے رہنمائی لیتے ہیں۔
آڈیٹر جنرل کی آئینی حیثیت:
صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس،اٹارنی جنرل جیسے آئینی عہدیدران کی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 168کے مطابق پاکستان کا ایک آڈیٹر جنرل ہوگا، اور اسکا تقرر وزیراعظم/وفاقی کابینہ کے مشورہ کے بعدصدرپاکستان کرے گا۔ عہدہ سنبھالنے سے پہلے آڈیٹر جنرل چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے آئین پاکستان کے تیسرے شیڈول میں درج حلف کے تحت حلف اٹھائے گا۔ آڈیٹر جنرل کی سروس کی دیگر شرائط و ضوابط کا تعین پارلیمنٹ سے منطور شدہ قانون کے تحت کیا جاتا ہے اور اگر قانون موجود نہ ہوتو صدارتی حکم کے تابع کیا جاتا ہے۔آڈیٹر جنرل کے عہدہ کی معیاد چار سال کے لئے ہے یا آفس ہولڈر 65سال کی عمر تک پہنچ جائے۔ جو آڈیٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہا ہو وہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد دو سال کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پاکستان کے کسی محکمہ میں مزید تقرری کا اہل نہیں ہوگا۔ آ ڈیٹر جنرل کو عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا، سوائے اس طریقہ کار کے جیسا کہ سپریم کورٹ کے جج کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے اپنایا جاتا ہے۔ یعنی آڈیٹر جنرل کو آرٹیکل 209 یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کے بعد عہدہ سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ عہدہ خالی ہونے یا آڈیٹر جنرل اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہوجائے تو صدر آڈیٹر جنرل آفس کے کسی سینئر ترین آفیسر کو مقرر کرسکتا ہے۔
آڈیٹر جنرل کے افعال اور اختیارات:
آئین کا آرٹیکل 169آڈیٹر جنرل کے افعال اور اختیارات بارے رہنمائی کرتا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مالیاتی اکاؤنٹس اور فیڈریشن یا صوبے کے ذریعہ قائم کردہ کسی اتھارٹی یا محکمہ یا ادارے کے اکاؤنٹس کی بابت آڈیٹر جنرل ایسے افعال اور اختیارات استعمال کرسکتا ہے جسکا تعین پارلیمنٹ سے منطور شدہ قانون کے تحت کیا جاتا ہے اور اگر قانون موجود نہ ہوتو صدارتی حکم کے تابع کیا جاتا ہے۔ آرٹیکل 170کے تحت مالیاتی اکاؤنٹس کے بارے میں ہدایات دینے کے لیے آڈیٹر جنرل بااختیار ہے۔ جس کے مطابق وفاق اور صوبوں کے اکاؤنٹس کو اس شکل میں اور ایسے اصولوں اور طریقوں کے مطابق رکھا جائے گا جو آڈیٹر جنرل صدر کی منظوری سے تجویز کرے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ اور کسی بھی اتھارٹی یا محکمہ یا ادارے کے اکاؤنٹس کا آڈٹ جو وفاقی یا صوبائی حکومت کی طرف سے یا اس کے کنٹرول میں ہے، آڈیٹر جنرل کرے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ آڈیٹر جنرل آڈٹس کی حدود اور نوعیت کا تعین کرنے لئے مکمل بااختیار ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹس:
آئین کے آرٹیکل 171کے مطابق وفاق کے اکاؤنٹس سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹیں صدر کو پیش کی جائیں گی۔ جو انہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کر یں گے۔ اسی طرح کسی صوبے کے اکاؤنٹس سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹس کو صوبے کے گورنر کے پاس جمع کرایا جائے گا۔ جو انہیں صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کریں گے۔
آڈیٹر جنرل آئینی عہدہ ہے انہیں وزیر مملکت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رپورٹس قومی، صوبائی اور ضلعی اسمبلیوں کے سامنے رکھی جاتی ہیں اور متعلقہ اسمبلیوں کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں میں زیر غور آتی ہیں۔آڈیٹر جنرل صرف اک عہدہ کا نام نہیں بلکہ یہ ریاست پاکستان کے خودمختار ادارے کی حیثیت رکھتا ہے ۔تقریباً 1500 اہل افسران آڈیٹر جنرل کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں معاونت کرتے ہیں۔ یہ ادارہ آئین کے آرٹیکل 168تا 171اور آڈیٹر جنرل (افعال، اختیارات اور سروس کی شرائط و ضوابط) آرڈیننس، 2001کے تابع افعال سرانجام دے رہا ہے۔ ملک میں عوامی احتساب اور حکومتی کارروائیوں میں مالی شفافیت کو یقینی بنانے کا اہم ادارہ ہے۔ آڈ یٹر جنرل آف پاکستان کے ملک بھر میں موجود تقریبا 47ہزار سے زائد اداروں اور فورمیشن کے آڈٹس کے لئے 30 فیلڈ دفاتر ہیں۔ پاکستانی عوام اس ادارہ سے اُمید رکھتی ہے کہ وہ فضول خرچی ، فراڈ، کرپشن، دھوکہ دہی کے امکان کو کم کرنے کے لیے ایگزیکٹو/ محکموں میں مالی نظم و ضبط اور انٹرنل کنٹرول سسٹم میں مزید بہتری لائے اور اسکے ساتھ محتسب ادارے اور پارلیمانی کمیٹیاں بھی آڈیٹر جنرل آفس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کی سفارشات پر من و عن عملدارآمد کرنے کے لئے لائحہ عمل وضح کریں۔ تاکہ ریاست پاکستان میں موجود کرپشن کے گراف کو کم کیا جاسکے جسکی بدولت کرپشن کی نظر ہونے والا قومی خزانہ عوام الناس کی فلاح وبہود کے کام آئے گا۔
واپس کریں