دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کامرس کالجوں کا مقدمہ بنام حکومتِ پنجاب
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
اطلاعات کے مطابق حکومت پنجاب پچاس جنرل کیڈر اور ستر سے زائد کامرس کالجوں کو آؤٹ سورس کرنے یا اِنہیں قریبی جنرل کالجز میں ضم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ کم انرولمنٹ اور زیادہ اخراجات کے باعث یہ اقدامات ضروری ہیں، تاہم اس پالیسی نے اساتذہ، طلبہ، ماہرینِ تعلیم اور سماجی حلقوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔جس سے کامرس کالجوں میں زیر تعلیم 22 ہزار طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ اگر یہ ادارے نجی ہاتھوں میں چلے گئے تو سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط گھرانوں کو ہوگا۔ نجی کالجوں کے اخراجات نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی سے محروم کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ہر کمزور کارکردگی دکھانے والے ادارے کے جواب میں نجکاری کو واحد حل سمجھ بیٹھی ہے؟ اگر تعلیم، صحت اور انصاف جیسی بنیادی انسانی ضروریات بھی نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائیں تو پھر ریاستی ذمہ داری کا مفہوم کیا رہ جاتا ہے؟ کیا ریاست کا کام سہولیات کی بجائے صرف عوام سے ٹیکس اکٹھے کرنا ہے؟
آئینِ پاکستان واضح طور پر ریاست کو تعلیم کی فراہمی کا پابند بناتا ہے۔
آرٹیکل 25-اے: 5 سے 16 سال تک بچوں کے لیے مفت لازمی تعلیم کی ذمہ داری ریاست پر عائد کرتا ہے۔ آرٹیکل 37 ریاست سے پسماندہ طبقات کے تحفظ اور ناخواندگی کے خاتمے کا تقاضا کرتے ہیں اور اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کو قابلِ رسائی بنانے پر زور دیتا ہے۔ ایسے میں کامرس کالجز کا انضمام یا نجکاری آئینی روح سے انحراف محسوس ہوتا ہے۔
یہ ادارے پاکستان کی معیشت کے لئے ایسی افرادی قوت تیار کرتے ہیں جو بینکاری، تجارت، مالیات اور صنعت کے بنیادی ڈھانچے کو سنبھالتے ہیں۔جیسا کہ:
کامرس سیکٹر: اکاؤنٹس مینجمنٹ، مالیاتی رپورٹس، سپلائی چین مینجمنٹ، مارکیٹ تجزیہ اور بزنس نظم و ضبط۔
بینکاری: بینکنگ سیکٹر میں کام کرنے والے افراد فنانس، رسک مینجمنٹ، قرضوں کی منظوری، سرمایہ کاری اور کسٹمر سروس جیسے اہم امور سرانجام دیتے ہیں۔
تجارت: ملکی اور بین الاقوامی تجارت کا انحصار سپلائی چین، امپورٹ ایکسپورٹ ڈاکیومنٹیشن، اسٹاک مینجمنٹ اور مارکیٹنگ پر ہوتا ہے یہ تمام کام کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی مہارت رکھنے والے افراد انجام دیتے ہیں۔
صنعت: صنعتی اداروں میں دفتری عملہ پیداواری عمل، کوالٹی کنٹرول، لیبر مینجمنٹ، مالیاتی نگرانی اور پلاننگ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
نجی کے علاوہ سرکاری دفاتر میں بھی کامرس گریجوایٹس اپنی مہارت کا لوہا منوارہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اک اشتہار نظروں سے گزرا جس میں ایک وفاقی وزارت کی 451 آسامیوں میں سے 229 عہدے ایسے تھے جن کے لیے کامرس کالجز کے فارغ التحصیل افراد ترجیحی بنیادوں پر درکار تھے۔ یہ اعداد خود بتاتے ہیں کہ یہ ادارے محض تعلیمی یونٹ نہیں، بلکہ ملک کے معاشی ڈھانچے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اک اندازے کے مطابق تعلیم کے دوسرے شعبہ کی نسبت کامرس کالجوں کے نوے فیصد فارغ التحصیل طلبہ برسرروزگار ہیں۔ اس وقت کامرس کالجز کے گریڈ 17 سے 20 تک کی منظور شدہ 1842 اسامیوں میں سے صرف 450 پر اساتذہ موجود ہیں جبکہ 1392 اسامیاں خالی ہیں۔ ایسے حالات میں انرولمنٹ کا کم ہونا حیرت انگیز نہیں اصل مسئلہ انتظامی غفلت اور انسانی وسائل کی شدید کمی ہے، نہ کہ طلبہ کی تعلیم سے عدم دلچسپی۔ سال 1999ء میں ان اداروں کو TEVTA کے ماتحت کیا گیا جہاں سفارشی بھرتیوں اور کمزور تدریسی ماحول نے معیار کو نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود 2011ء تک ان کالجز میں 60 ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے رہے۔
سال 2012 میں یہ ادارے TEVTA سے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو منتقل ہوئے۔ بعد ازاں جنرل کالجز اور نجی اداروں نے بڑے پیمانے پر کامرس پروگرامز شروع کیے، لیکن ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان نئے مضامین کے مطابق اساتذہ فراہم نہ کر سکا۔ مسلسل ریٹائرمنٹس، کنٹریکٹ اساتذہ کی غیر یقینی کیفیت اور حکومتی عدم توجہی کے باعث صورتحال مزید خراب ہوتی گئی، یہاں تک کہ کئی اداروں میں صرف دو یا تین اساتذہ رہ گئے۔ یاد رہے 2018ء میں ایک غلط فہمی پر ان کالجز کو بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا، تاہم کامرس اساتذہ کی تنظیم CTA نے ایک تفصیلی پریزنٹیشن کے ذریعے ان اداروں کی اہمیت واضح کی تو اس فیصلے کو واپس لے کر بی ایس پروگرام شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ مگر افسوس کہ اس کے بعد بھی عملدرآمد کے لیے ضروری تدریسی عملہ فراہم نہ کیا گیا۔
حکومت کے حالیہ فیصلے تعلیمی و معاشی دونوں حوالوں سے نقصان دہ ہیں۔ اگر حکومت واقعی کامرس تعلیم میں جدت اور بہتری چاہتی ہے تو درست راستہ نجکاری یا انضمام نہیں بلکہ درج ذیل اصلاحات ہیں، جیسا کہ: بی ایس پروگرامز کے مطابق تدریسی آسامیوں پر فوری بھرتیاں۔ اساتذہ کی تربیت اور پیشہ ورانہ ترقی۔ ڈی کام سمیت تمام کورسز کی جدید تقاضوں کے مطابق نظرثانی۔ چیمبرز آف کامرس اور صنعتوں سے باقاعدہ روابط۔ کمپیوٹر لیب، ویب پورٹلز اور ڈیجیٹل ڈیٹا بیس کا قیام۔ کلاس رومز اور لیبارٹریوں کا سولر انرجی پر منتقل کرنا۔ نان-ٹیچنگ اسٹاف کی فراہمی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ریاست اساتذہ، انفراسٹرکچر اور وسائل پر سرمایہ کاری کرے تو کامرس کالجز آج بھی بہترین معیار فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فیصلے فائلوں پر نہیں بلکہ ان نوجوانوں کے مستقبل کو سامنے رکھ کر ہونے چاہئیں۔
تعلیم ریاست کی ملکیت نہیں بلکہ قوم کی میراث ہے۔ اسے سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا آنے والی نسلوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سرکاری کالجز کو بند کرکے پرائیویٹ اداروں میں طلبہ کی کم ہوتی ہوئی تعداد کو سپورٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ نوے فیصد پاس آؤٹ ہونے والے نوجوانوں کے لئے روزگار کھولنے والے کامرس کالجوں کو بند کرنے کی نہیں بلکہ مزید اساتذہ کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے کامرس کالجز کے حوالے سے فیصلے کرتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہی ادارے ملک کی معاشی ترقی کا پُشت بان ہیں انہیں کمزور کرنا درحقیقت ملک کے مستقبل کو کمزور کرنا ہے۔
واپس کریں