دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"فورتھ شیڈول کیا ہے؟ ایک جائزہ"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے جہاں کئی قانونی اقدامات کئے جاتے ہیں وہیں ’’فورتھ شیڈول‘‘ بھی ایک اہم قانونی شق ہے جو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ ایک 11 کے تحت وضع کی گئی ہے ۔ اس قانون ریاست کو اُن افراد پر نظر رکھنے کا اختیار دیتا ہے جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ امن عامہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا پھر سوسائٹی میں کوئی برائی یا خوف و ہراس پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں۔ موجودہ دور میں فورتھ شیڈول میں نام شامل ہو جانا ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے جو فرد کی آزادی، نقل و حرکت، اور مالی معاملات سمیت زندگی کے کئی پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ کسی شہری کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کر لیا جائے تو پھر انتظامیہ کی طرف سے اُس شخص پر بہت سی پابندیاں لگ جاتی ہیں جن کے تابع زندگی گزارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ فورتھ شیڈول میں شامل شخص کو سب سے پہلے تو پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ حاضری لگوانی پڑتی ہے جو کہ پندرہ روزہ یا پھر ماہانہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے شکار شخص کو ضلع یا صوبے کی حدود سے باہر سفر کے لئے انتظامیہ سے پیشگی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر رہائش تبدیل کرنا مقصود ہو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ رہائش اختیار کرنے کیلئے فوری طور پر متعلقہ تھانے کو اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے۔ اکثر اوقات مذکورہ شخص کا پاسپورٹ منسوخ یا ضبط کر لیا جاتا ہے اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ مالی معاملات پر نظر رکھنے کیلئے بینک اکاؤنٹس کی نگرانی کی جاتی ہے اور بعض اوقات اکاؤنٹس منجمد بھی کر دئیے جاتے ہیں۔ مذکورہ شخص کو کسی بھی قسم کے جلسہ، جلوس یا عوامی اجتماع میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی اور اُس کے نام پر جاری کئے گئے اسلحہ لائسنس معطل یا منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اُس شخص کی آن لائن سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کیلئے اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا پابندیوں کا سامنا کرنا ایک انتہائی مشکل فعل ہے لیکن دوسری طرف فورتھ شیڈول سے اخراج کا راستہ بھی موجود ہے چہ جائیکہ طریقہ کار انتہائی پیچیدہ اور صبر آزما ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق فورتھ شیڈول میں نام آ جانے کے بعد ایک شہری کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور اپنے حقوق بحال کروانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کے لئے اسے باقاعدہ قانونی عمل اپنانا پڑتا ہے۔ جس میں سب سے پہلے متعلقہ ڈی سی دفتر یا محکمہ داخلہ کو تحریری درخواست گزاری جاتی ہے جس میں اپنی پُرامن شہری حیثیت کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور یقین دھانی کرانی پڑتی ہے کہ مستقبل میں وہ معاشرہ کیلئے خطرے کا تکلیف کا سبب نہیں بنے گا۔ درخواست کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ کی نقل، فورتھ شیڈول میں نام شامل کرنے کا نوٹیفکیشن، اچھی شہرت کے سرٹیفکیٹس، اور اگر کوئی مقدمہ درج تھا تو اُس کی بریت کے شواہد فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پولیس اور انٹیلی جنس ادارے درخواست گزار کے حوالہ سے تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹس مرتب کرتے ہیں اور بعض اوقات درخواست گزار کو ذاتی طور پر طلب کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی پوزیشن واضح کر سکے۔ اگر متعقلہ تمام رپورٹس اطمینان بخش ہوں تو رپورٹس کی بنیاد پر محکمہ داخلہ اُس شخص کو فورتھ شیڈول سے خارج کرنے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے لیکن اگر انتظامیہ درخواست مسترد کر دے تو متاثرہ فرد ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ اور پھر اس کے اخراج کا فیصلہ معزز عدالت کرتی ہے۔
اس سلسلہ میں میرا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی بھی شہری کا نام بے جا طور پر یا پھر انتقامی کاروائی کے طور پر فورتھ شیڈول میں شامل کرنا انتہائی زیادتی ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا شخص جو واقعی سوسائٹی کے لئے مسائل پیدا کرتا ہے تو پھر اس کو ایسی سزا دینا اچھی بات ہے کیونکہ یہ سزا ناقابلِ برداشت حد تک ذہنی ٹینشن ہے جو لمبے عرصہ تک چمٹی رہتی ہے۔
واپس کریں