عصمت اللہ نیازی
گذشتہ ہفتہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچانک ابھرنے والی کشیدگی نے پورے خطہ کو خوف و ہراس کی فضا میں دھکیل دیا۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ، الزام تراشی، اور جارحانہ بیانات نے ماحول کو اس قدر گرما دیا کہ دنیا کو ایک لمحہ کے لئے یہ گمان ہوا کہ شاید جنوبی ایشیا دو ایٹمی طاقتوں کی براہ راست جنگ کا میدان بننے والا ہے۔ تاہم خوش قسمتی سے امریکہ کی مداخلت کے بعد سیزفائر عمل میں آیا اور ایک ممکنہ تباہی ٹل گئی۔ اس ساری صورتحال نے دو بڑے اہم پہلوؤں کو بہت واضح کر دیا ہے جن میں پہلا یہ کہ امریکہ اب بھی دنیا کا "چوہدری" ہے جس کے ایک اشارے پر نہ صرف جنگ کی آگ بجھائی جا سکتی ہے بلکہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے بیانیے بھی یکایک بدل جاتے ہیں۔ امریکہ کی اس حیثیت پر چاہے جتنا بھی اعتراض کیا جائے اور دنیا میں نئے چوہدری بننے کے کئی خواہش مند موجود ہوں لیکن فی الحال دنیا کے طاقت کے توازن میں امریکہ ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ دوسرا اور شاید زیادہ افسوسناک پہلو دونوں ملکوں کے مین سٹریم میڈیا کا کردار ہے۔ میں بطور ایک صحافی میڈیا کے اس کردار پر بہت شرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ ایسی نازک صورتحال میں جب میڈیا کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ذمہ داری اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے لیکن پاکستانی اور بھارتی چینلز نے صحافتی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف دو نیو کلئیر طاقتوں کے درمیان اشتعال انگیزی بھڑکانے کی پوری کوشش کہ بلکہ اپنے اپنے ملکوں کی عوام کو جھوٹ اور افواہوں کے اندھیرے میں بھی دھکیل دیا۔ خبروں کی جگہ جذباتی نعروں نے لے لی اور تجزیہ کی جگہ جنگی ترانے بجائے جانے لگے۔ اس صورتحال میں بعض اوقات تو محسوس ہوتا تھا کہ ان چینلز کے نیوز اسٹوڈیوز نہیں بلکہ کوئی کرکٹ اسٹیڈیم ہے جہاں دشمن کے چھکے چھڑانے کی کمنٹری ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا نے تو انتہا کرتے ہوئے جہاں جھوٹے دعوے، فرضی وڈیو کلپس اور فوجی کارناموں کی من گھڑت داستانیں پھیلائیں اور انڈیا کے ایک بہت بڑے چینل نے یہ خبریں بھی چلائیں کہ اسلام آباد کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف کا گرفتار کر لیا گیا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم روپوش ہو گئے ہیں ایسی خبریں چلانے پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور آزاد میڈیا کا دعویٰ کرنے والی سیکولر ریاست کو ڈوب مرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ پاکستانی میڈیا نے بھی اسی انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے بغیر تصدیق کے خبروں کو نشر کیا اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام الناس کی سوچ میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے عناصر مزید گہرے ہو گئے۔ میڈیا جو دنیا بھر میں امن اور فہم و فراست کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس کی قلعی کھل گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا کے بڑے چینلز پر گذشتہ ایک دھائی سے صحافیوں کی بجائے کاروباری اشخاص کا قبضہ ہو چکا ہے جو صحافت کی عزت اور اخلاقیات کی بجائے صرف اپنا منافع دیکھتے ہیں اور اسی تاڑ میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا موقع ملے جس سے وہ حکمرانوں کے قریب ہوں اور اس موقع سے بھی حب الوطنی کے نام پر انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور صحافت کو یک طرفہ پروپیگنڈا مشین بنا دیا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو جس طرح عوام کا اعتبار پہلے سے ہی صحافیوں سے اٹھ چکا ہے وہ اب بالکل ختم ہو جائے گا مستقبل میں عوام یہ فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کی ساکھ پہلے ہی مسلسل سوالات کی زد میں ہے اور ایسے مواقع پر اس کی غفلت اور جانبداری اسے مزید بے اعتبار بنا دیتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ صورت حال سے دونوں ملکوں کے صحافی، اینکرز اور چینلز کو نہ صرف اپنی پالیسیوں پر بلکہ اپنی سوچ میں بھی تبدیلی لانے پڑے گی کیونکہ میڈیا صرف ریٹنگ اور حب الوطنی کے دعوے بیچنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو رائے عامہ تشکیل دیتی ہے اور اگر ہم نے مستقبل میں اس شعبہ میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو ہم اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھیں گے۔
واپس کریں