
اسرائیلی آرمی چیف کی جانب سے غزہ پر باقاعدہ قبضے کے منصوبے کی منظوری دینے کے اعلان کے بعد فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم نے اشارہ دیدیا ہے کہ غزہ میں حماس کی حکومت نہیں رہے گی جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے نئے منصوبے کو قبول کرلیا اور اس حوالے سے اپنا جواب بھی ثالثوں تک پہنچا دیا ہے۔دوسری جانب امریکا نے غزہ کے شہریوں کیلئے وزٹ ویزہ کا اجرا عارضی طور پر روک دیا۔یاد رہے کہ غزہ اسرائیلی جنگ میں،شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جس میں زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔
یاد کیجئے گا کہ اسی انقلابی حماس نے جب ”آپریشن الاقصیٰ فلڈ“ کے نام سے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر بڑے پیمانے پر راکٹ حملے کیے تھے جس میں 1,195 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا اور جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع کیں، جس سے موجودہ جنگ کا آغاز ہوا،تو اس ناچیز خاکسار نے اسی روز عرض کر دیا تھا کہ اب فسلطین یا کم از کم غزہ ہر صورت میں ”امت“ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
آپ دیکھئے کہ محض دو سال کے مختصر عرصے میں غزہ کس آسانی کے ساتھ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا اور اس دوران جس جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا،جو ابھی بھی جاری ہے، اسے لکھتے ہوئے ہاتھ لرزتے ہیں اور زبان ساتھ نہیں دیتی۔
اب ایک مرتبہ پھر سے دوبارہ عرض کیئے دیتا ہوں تا کہ سند رہے، روایت کے مطابق کچھ سالوں بعد جب امریکن سی آئی اے یا پنٹاگان کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئیں گی تو معلوم پڑے گا کہ یہی انقلابی حماس امریکی سی آئی اے کے اشاروں پر ناچ رہی تھی،گریٹر اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں ایک سازش کے تحت حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملے کیئے تھے جس کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی لقمہ اجل بنے اور بالآخر ان کی آبائی سرزمین غزہ پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو گیا۔ واضع رہے کہ”گریٹر اسرائیل“ کی حدود میں لبنان، شام، اردن، مصر کے کچھ حصے اور فلسطینی مغربی کنارے اور غزہ شامل ہیں۔
صہیونی تحریک (Zionism) کا مقصد یہودی قوم کے لیے ایک وطن کی تشکیل تھا جو بالآخر 1948 میں جدید اسرائیل کے قیام کی شکل میں سامنے آیا۔ جوامت مسلمہ پہلے بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اور77 برس گزر جانے کے بعد بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اب ایسی امت کے لیڈران سے کسی خیر یا غیرت کی کیا امید لگائی جا سکتی ہے۔
واپس کریں