
آذاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ افسوس ناک سماجی و سیاسی واقعات کے بعد ریاستی اقدامات نے حکمرانوں اور انتظامیہ کے خلاف عوامی نفرت میں کئی گنا اضافی کر دیا ہے۔ حکمران اور روایتی سیاسی لیڈران اس ساری توجہ طلب صورت حال پر مکمل سرد مہری اور لاتعلقی دکھاتے ہوئے آمدہ الیکشن میں اپنی سیٹیں پکی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب انتظامیہ اور بیوروکریسی وہ تمغے لینے پر ناچ رہی ہے جو بقول شخصے مہوش حیات کو بھی دیئے گئے تھے۔
آذاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق قومی یا”ریاستی پالیسی“ روز اول سے اشٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں رہی ہے جس کا نتیجہ آخر کار اب یہ نکلا ہے کہ آذاد کشمیر کے طول و عرض میں خود مختار کشمیر اور ریاست مخالف نعرے سننے کو مل رہے ہیں جو یقینا ایک افسوس ناک اور تشویشناک امر ہے جبکہ دوسری جانب حقیقت حال یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران، کارکنان، عام سرکاری اہلکاران اور نچلے درجے کے افسران آذاد کشمیر میں اشٹبلشمنٹ کی بے جا مداخلت اور پالیسیوں کے باعث پریشان اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں۔
آذاد کشمیر کی سیاست اور حکومت سازی میں سیاسی کارکنان اور ان کے لیڈروں سے زیادہ کردار خفیہ ایجنسیوں کا رہا ہے،یہی حقیقت ہے لیکن اب،امیدوارانِ قانون ساز اسمبلی جو الیکشن جیتنے کے لیئے خفیہ ایجنسیوں کے سہاروں کے منتظر رہتے ہیں انہیں مشورہ ہے کہ اس مرتبہ وہ مرتبہ اشٹبلشمنٹ یا ایجنسیوں کے کندھے اور ان کی غیبی امداد کے بغیر اپنے زورِ بازو پر الیکشن لڑیں کیونکہ عوامی ایکشن کمیٹی جس میں خالصتاً عام عوام شامل ہیں نے ابھی تک یہی تاثر دیا ہے کہ آذاد کشمیر میں رونماء ہونے والے پرتشدد واقعات بلخصوص ضلع کوٹلی اور راولاکوٹ کے حالیہ افسوسناک واقعات عوام کے جذبات کے عکاس ہیں اور اب صورت حال یہ بن چکی ہے کہ اشٹبلشمنٹ یا خفیہ اداروں کا حمایتی دکھائی دینے والا ہر امیدوار شجر ممنوعہ یا نا پسندیدہ بنتا چلا جا رہا ہے۔
2017 میں مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے ایک سروے میں 72 فیصد لوگوں نے آزاد خود مختار جموں و کشمیر کی حمایت کی اور 2019 کے بعد یہ تناسب 85 فیصد سے زیادہ ہو گیا۔ گو کہ مذکورہ اعداد و شمار آزاد کشمیر کے بجائے مقبوضہ کشمیر سے متعلق ہیں لیکن آزاد کشمیر کے عوام کے جذبات کو سمجھنے کے لیے حالیہ احتجاجی تحریکوں اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، 2024 اور 2025 میں مہنگی بجلی اور آٹے کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک یا احتجاج نے ظاہر کیا کہ عوام بنیادی حقوق اور معاشی انصاف کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، یہ تحریک یا احتجاج خود مختاری سے براہ راست منسلک نہیں تھا لیکن اس سے آذاد کشمیر کے اسلام آباد یافتہ حکومتی نظام پر عدم اعتماد اور خود مختاری کے جذبات کو واضع تقویت ملی۔
امر واقع یہ ہے کہ اشٹبلشمنٹ نے خارجہ امور بلخصوص کشمیر اور افغان پالیسی کو ہمیشہ سے اپنی گرفت میں لیئے رکھا۔ لولی لنگڑی جمہوری حکومتوں کو اس قدر بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ افغان اور کشمیر پالیسی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں آذادانہ بحث و مباحثہ یا کوئی فیصلہ سازی کر سکیں اور تو اور کشمیر اور افغان پالیسی پر سیاسی قیادت یا عوام کی جانب سے نکتہ چینی یا تنقید کرنے کو ملکی سلامتی کے خلاف قرار دیا گیا،آذاد کشمیر میں غیر سیاسی اور بے یقینی اور بے چینی کی صورت حال اسی باعث بنی یا پیدا ہوئی ہے۔
برطانوی سامراج خطہِ برِ صغیر سے جاتے جاتے یقینا کشمیر کا تنازعہ جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زندہ چھوڑ گیا تا کہ اس خطہ کے دونوں ممالک”کشمیر کی آذادی“ کے نام پر آپس میں دست و گریباں رہیں اور ان ممالک کے فنڈز غریب عوام کی کی صحت، تعلیم و ترقی اور عوامی فلاح کے بجائے صرف تنازعہِ کشمیر پر ہی صرف ہوتے رہیں اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی مقتدرہ اگر کسی پیج پر اکھٹی نظر آتی ہے تو وہ تنازعہِ کشمیر ہے۔
جب تک کشمیر کا تنازعہ زندہ رہے گا، دونوں ممالک کی مقدرہ اور ان کے بنائے گئے سیاسی لیڈران کی روٹیاں لگی رہیں گی اور دونوں ممالک کے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہے گا لیکن اب شائد وقت بدل چکا ہے۔
اس سے پہلے کہ آذاد کشمیر جیسا پر امن خطہ بھی بلوچستان کی طرح بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی آماجگاہ اور ایک نیا میدان جنگ بن جائے،اس ملک کے اصل فیصلہ سازوں کو خطہ کے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی پرانی اور گھسی پٹی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔کہیں یہاں بھی دیر نہ ہو جائے،جیسے کہ ہمارے ہر اہم اور حساس معاملے میں ہمیشہ دیر ہوتی رہی ہے۔
واپس کریں