
یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ مون سون نہیں ہے بلکہ موسمیاتی دھڑن تختہ ہے۔ کشمیر، بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، دیر، مانسہرہ اور قریبی علاقوں میں تباہ کن سیلاب سے 200 سے زیادہ جانوں کے ضیاع ، گھروں اور پلوں کی تباہی اور MI17 ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے ریسکیو ٹیم کے ممبران کے لیے دل بہت دکھی ہے ۔ تاہم یہ سانحات ایک تکلیف دہ یاد دہانی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہمارے گھروں کے اندر داخل ہوچکی ہے۔
پاکستان میں یہ آفات اب کوئی ’غیر معمولی‘ واقعہ نہیں رہیں بلکہ معمول کا کام بن چُکا ہے اور ہم سے فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کررہاہے ۔ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے عملی اقدامات میں تاخیر کرتے رہے تو صرف اگلے پانچ سالوں کے اندر ہماری اس بےعملی کی لاگت 250 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ صرف اکیلے سیلاب سے 2050 تک پاکستان کو60 ارب ڈالر کے نقصانات ہوسکتے ہیں۔
اس سال 2025 کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کا حصہ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 1% ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک انسانی المیہ ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہورہا ہے۔ حکومتوں کو اب الفاظ سے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ یہ آفت اچانک نہیں آتی اس کا ہمیں کئی سالوں سے ادراک تھا لیکن اس سے نپٹنے کے لئے ہماری تیاریاں، پالیسیاں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ کام اب فوری ہونے چاہئیں
1-جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ بند ہونا چاہئے۔
2-دریاؤں، ندی نالوں اور سیلابی راستوں کی نشاندہی ہوکر ان میں انسانی آبادیوں پر پابندی ہونی چاہئے۔
3-ماحولیاتی ماڈلنگ ، سیلاب کی پیش گوئی اور سیلاب کے انتباہ کے نظام ہونے چاہئیں جوکہ ڈیجیٹل دور میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
4-آفت کے وقت آفت زدہ علاقوں میں ریسکیو اور ریسپانس کی ایپ ہونی چاہئے۔
5-سیاحوں کی ممکنہ طور پر سیلابی علاقوں میں آمدورفت مانیٹر ہو۔
6-پلوں، سڑکوں اور دیگر تعمیرات کے سٹینڈرڈ اور کوڈ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے اپ گریڈ ہوں۔
7-موسمیاتی آفتوں سے بچاؤ سے منسلک تمام محکموں کا آپس میں گہرا ربط بنانا چاہئے اور ان محکموں میں کام کرنے والے فیصلہ سازوں اور کارکنان کی موسمیاتی تبدیلیوں کی جدید سائنس پر تربیت اور کیپیسٹی بلڈنگ کرنا چاہئے۔
8۔ عالمی اداروں سے موسمیاتی انصاف کے تقاضوں کے مطابق آفتوں سے نپٹنے کے لیے مدد اور ان سے بچنے کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ لانی چاہئے۔
9۔عوامی سطح پرموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کے لئے شعور بیدار کرناچاہئے اور عوام الناس کی تربیت کرنی چاہئے۔
واپس کریں