اپنی دولت سے اپنی تقدیر خود لکھیں یا دوسروں کو اپنی قسمت کا مالک بنائیں۔ محمد صداقت طلحہ

12 اگست 2025 کو "ساوتھ ایشیا انڈیکس" کی دو رپورٹس نے دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کر دی۔ پہلی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بریفنگ دی کہ پاکستان میں نایاب زمینی معدنیات (Rare Earth Minerals) کے ذخائر کا تخمینہ چار سے پانچ کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ ذخائر زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ صرف انیس منٹ بعد شائع ہونے والی دوسری رپورٹ میں بتایا گیا کہ چینی اندازوں کے مطابق یہ ذخائر آٹھ کھرب ڈالر سے بھی زائد ہیں، جو پاکستان کو مستقبل میں دنیا کا نمایاں ترین ملک بنا سکتے ہیں۔۔
یہ معدنیات اس لیے اہم ہیں کہ نایاب زمینی معدنیات جدید ٹیکنالوجی کا بنیادی جزو ہیں۔ یہ اسمارٹ فونز، برقی گاڑیاں، شمسی توانائی کے پینلز، فوجی راڈار سسٹمز اور جدید ہتھیار بنانے میں ناگزیر ہیں۔ اس وقت دنیا کی نوے فیصد پیداوار چین کے کنٹرول میں ہے، جس کی وجہ سے عالمی معیشت میں اس کا اسٹریٹیجک اثر بے پناہ بڑھ گیا ہے۔ اگر پاکستان اپنے وسائل کو درست منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لائے تو وہ نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ دنیا کے ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم کھلاڑی بھی بن سکتا ہے۔۔
پاکستان میں معدنی وسائل کی تاریخ شاندار ہونے کے باوجود افسوسناک انجام کی حامل رہی ہے۔ بلوچستان کا ریکوڈک دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر میں شمار ہوتا ہے، جہاں تقریباً 5.9 ارب ٹن تانبہ اور 41.3 ملین اونس سونا موجود ہے۔ موجودہ عالمی نرخ کے مطابق سونے کی فی اونس قیمت تقریباً 2400 ڈالر اور تانبے کی فی ٹن قیمت تقریباً 8500 ڈالر ہے، جس سے صرف ریکوڈک کے ذخائر کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ سیندک منصوبہ بھی تانبے، سونے اور چاندی کے بڑے ذخائر کا حامل ہے، مگر اس کا زیادہ تر منافع غیر ملکی کمپنیوں کو جاتا رہا۔ سندھ کا تھر کول فیلڈ دنیا کے چھٹے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر رکھتا ہے، جن کا تخمینہ 175 ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اگر اس کا صرف دو فیصد حصہ بھی استعمال کیا جائے تو پاکستان کی توانائی ضروریات کئی دہائیوں تک پوری ہو سکتی ہیں اور موجودہ عالمی نرخ کے مطابق کوئلے کی فی ٹن قیمت تقریباً 130 ڈالر ہے۔۔
یہ تمام اعداد و شمار اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ دولت عوامی خوشحالی کا ذریعہ بنے گی یا عالمی طاقتوں کی کشمکش میں قربان ہو جائے گی؟؟ جب تک امریکی تسلط اس خطے سے ختم نہیں ہوتا اور حکمران طبقات آزادی کی طویل جدوجہد کے لیے تیار نہیں ہوتے ان وسائل کو قومی مفاد میں استعمال کرنا مشکل ہے۔ مزید یہ کہ اگر ہم نے اپنی معیشت اور سیاست کو خود مختار بنیادوں پر استوار نہ کیا تو مستقبل میں ہم امریکی تسلط سے نکل کر چینی تسلط میں بھی جا سکتے ہیں۔ طاقت کا توازن بدلنے کا مطلب غلامی کا خاتمہ نہیں بلکہ اکثر صرف آقا بدل جاتا ہے۔۔
پاکستان کو ایک ایسی ملک گیر قیادت کی ضرورت ہے جو آئین کی پاسداری کرے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے، معاشی ترقی اور داخلی امن کو فروغ دے اور بیرونی آقاؤں چاہے وہ امریکہ ہوں یا چین کے لیے اپنے ملکی مفادات کو قربان کرنے سے انکار کرے۔ اصل آزادی اس وقت ممکن ہوگی جب پاکستان ایک خودمختار، خوددار اور خود کفیل قوم بن کر ابھرے جو اپنی معدنی دولت کو اپنے عوام کے لیے استعمال کرے۔
یہ معدنی دولت بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن اگر ہم نے اپنی سمت درست نہ کی تو یہ ہمارے لیے ایک نئے استعماری شکنجے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ تاریخ نے بارہا یہ سچ ثابت کیا ہے کہ وسائل سے مالا مال مگر سیاسی طور پر کمزور قومیں ہمیشہ دوسروں کی غلام بن جاتی ہیں۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے یا تو ہم اپنی دولت سے اپنی تقدیر خود لکھیں یا دوسروں کو اپنی قسمت کا مالک بنائیں۔۔ محمد صداقت طلحہ
واپس کریں